جنوبی ایشیا کی دو ہمسایہ ایٹمی قوتوں پاکستان اور بھارت کے کشیدہ تعلقات میں جہاں مستقبل قریب میں کسی بہتری کے آثار دکھائی نہیں دے رہے وہیں آئے روز ایک دوسرے کے خلاف سامنے آنے والے بیانات بھی صورتحال کو مزید گمبھیر بنانے کا سبب بن رہے ہیں۔
بھارتی فوج کے سربراہ جنرل بپن راوت کی طرف سے پاکستان پر حملے اور اس کی جوہری دھمکیوں سے نمٹنے کے لیے تیار ہونے کے بیان کو پاکستان غیر ذمہ دارانہ اور دھمکی آمیز قرار دیتے ہوئے شدید ردعمل کا اظہار کر چکا ہے۔
ہفتہ کو دیر گئے پاکستانی وزیرخارجہ خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ بھارت اگر ان کے ملک کے عزم کو آزمانا چاہتا ہے تو وہ اسے خوش آمدید کہیں گے اور ان کے بقول بھارتی جنرل کی غلط فہمی دور کر دی جائے گی۔
پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے اپنے ردعمل میں کہا کہ ان کا ملک بھارت کی کسی بھی مہم جوئی کا بھرپور جواب دینے کے لیے تیار ہے۔
ایسے بیانات نے پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کو برانگیخت کر دیا ہے جسے غیر جانبدار حلقے دونوں ملکوں اور خطے کے امن کے لیے سودمند خیال نہیں کرتے۔
سینیئر تجزیہ کار ڈاکٹر اے ایچ نیئر نے اتوار کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ چونکہ دونوں ملکوں کے درمیان بات چیت کا باقاعدہ عمل معطل ہے اسی وجہ سے تلخی مزید بڑھ رہی ہے۔
"میرے خیال میں یہ آپ بہت حدود کو پھلانگ کر بہت آگے تک جا رہے ہیں اور ایک ایسی جہگہ پر پہنچ رہے ہیں جہاں پر پاکستان کے پاس اس کے سوا کوئی اور راستہ نہیں چھوڑ رہے جہاں پاکستان محسوس کرے کہ اسے خطرہ ہو رہا ہے تو بجائے اس کے کہ وہ ان چیزوں کو روکے وہ اپنے ہتھیار استعمال کر دے کہ چلو ویسے بھی مرنا ہے اور ایسے بھی مرنا ہے، لہذا چلو ہم ہتھیاروں کو استعمال کر لیں، میرے خیال میں ایسی صورت سے ہر صورت بچنا چاہیے۔"
وفاقی وزیرداخلہ احسن اقبال نے بھی اتوار کو صحافیوں سے گفتگو میں ایسے ہی خیال کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جوہری قوت کی حامل ریاستوں کو زیادہ ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے جو ان کے بقول بھارت کی طرف سے دیکھنے میں نہیں آ رہا۔
"ان کا بیان غیر ذمہ دارانہ ہے چونکہ جو ایٹمی قوتیں ہیں ان پر بڑی ذمہ داری ہوتی ہے، ایٹمی اسلحہ پستول نہیں ہے یا غلیل نہیں ہے یہ وسیع تباہی کا ہتھیار ہیں۔"
ڈاکٹر اے ایچ نیئر کہتے ہیں کہ اس کشیدہ صورتحال کی ذمہ داری پاکستان کے ساتھ ساتھ بھارت پر بھی عائد ہوتی ہے جو ان کے بقول اپنی مضبوط اقتصادی حیثیت اور خطے کی سیاسی صورتحال کے تناظر میں اپنے موقف کی تائید چاہتا ہے اور پاکستان پر دباؤ بڑھانا چاہتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر کشیدگی اسی طرح بڑھتی رہی تو یہ صورتحال بہتری کی بجائے مزید خرابی کی طرف جائے گی۔