اسلام آباد نے نئی دہلی کی طرف سے عسکریت پسند تنظیم جیش محمد کے سربراہ مسعود اظہر کا نام پابندی کی فہرست میں شامل کروانے کی کوشش کو ایک سیاسی اقدام قرار دیتے ہوئے اسے پاکستان میں اپنی مبینہ دہشت گردی کی سرگرمیوں سے توجہ ہٹانے کی کوشش قرار دیا ہے۔
یہ بات پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان نفیس ذکریا کی طرف سے اتوار کو جاری ہونے والے ایک بیان میں کہی گئی۔
انہوں نے یہ بیان ذرائع ابلاغ میں ان خبروں کے بعد جاری کیا جن میں کہا گیا تھا کہ چین نے بھارت کی طرف سے شدت پسند تنظیم جیشِ محمد کے سربراہ مسعود اظہر کا نام اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی ممنوع تنظیموں کی فہرست میں شامل کرنے کی کوشش روک دی ہے۔
بھارت جیشِ محمد اور مولانا مسعود اظہر پر اپنے ملک میں ہونے والے کئی حملوں میں ملوث ہونے کا الزام لگاتا ہے، جن میں گزشتہ سال کے اوائل میں پٹھان کوٹ کے فضائی اڈے پر کیا جانے والا حملہ بھی شامل ہے۔
پاکستانی حکام نے حملے کے بعد مسعود اظہر اور ان کے ساتھیوں سے پوچھ گچھ کی تھی تاہم کہا تھا کہ انھیں اس حملے میں ملوث ہونے کے کوئی شواہد نہیں ملے۔
جیشِ محمد پہلے ہی سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی ممنوع تنظیموں میں شامل ہے تاہم مسعود اظہر کا نام بلیک لسٹ میں شامل نہیں ہے۔
گزشتہ سال کے دوران جنوبی ایشیا کے حریف ملکوں پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کشیدہ رہے۔ گزشتہ ستمبر کے اواخر میں بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں بھارتی فوج کے ایک کیمپ پر ہونے والے حملے کے بعد یہ تعلقات مزید تناؤ کا شکار ہو گئے۔
بھارت نے پاکستان پر الزام عائد کیا تھا کہ بھارتی فوج کے کیمپ پر حملہ کرنے والے عسکریت پسندوں کو پاکستان کی معاونت حاصل تھی، تاہم اسلام آباد اس الزام کو مسترد کرتا ہے۔
تجزیہ کار ظفر جسپال نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ دونوں ملکوں کی باہمی کشیدگی سے ان کے باہمی تعلقات پر منفی اثر پڑ رہا ہے۔
"پاکستان میں جو کچھ ہوتا ہے پاکستان یہ سمجھتا ہے کہ ان میں بھارت ملوث ہے اور بھارتی کمشیر کی تحریک جب تک چلتی رہے گی تو بھارت پاکستان پر الزام عائد کرتا رہے گا تو آپ کہہ سکتے ہیں جب تک یہ کشیدگی رہے گی تو الزامات اور جوابی الزامات کا سلسلہ چلتا رہے گا۔"
تاہم ظفر جسپال نے کہا کہ جب دونوں ملکوں کے درمیان بات چیت کا عمل شروع ہو گا تو اس طرح کے الزامات کا سلسلہ خود بخود ختم ہو جائے گا۔