اسلام آباد نے توقع ظاہر کی ہے کہ افغانستان میں مستقبل کی حکومت کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) یا ایسے دیگر عناصر کو پاکستان میں کسی بھی قسم کی دہشت گردی کے لیے اپنی سر زمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔
پاکستان کے دفترِ خارجہ کے ترجمان زاہد حفیظ چوہدری نے یہ بات ایک ایسے وقت میں کہی ہے جب حال ہی میں طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کابل میں ایک نیوز کانفرنس میں یقین دہانی کرا چکے ہیں کہ افغانستان کی سر زمین کسی اور ملک کے خلاف استعمال ہونے کیبالکل اجازت نہیں دی جائے گی۔
جمعے کو معمول کی نیوز بریفنگ کے دوران پاکستان کے دفترِ خارجہ کے ترجمان زاہد حفیظ چوہدری نے کہا کہ افغانستان کی سر زمین دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہونی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ طالبان نے بھی اس بات کو عندیہ دیا ہے کہ وہ افغانستان کی سر زمین کسی کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ ترجمان دفترِ خارجہ نے اسے مثبت عندیہ قرار دیا ہے۔
لیکن ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان تحریک طالبان پاکستان کا معاملہ اٹھاتا رہے گا۔
انہوں نے کہا کہ کالعدم ٹی ٹی پی پر نہ صرف پاکستان میں پابندی ہے بلکہ اقوامِ متحدہ بھی اسے دہشت گرد تنظیم قرار دے چکی ہے۔
یادر ہے کہ ٹی ٹی پی ماضی میں پاکستان میں ہونے والے متعدد دہشت گردی کے ذمہ داری قبول کرتی رہی ہے اور اس شدت پسند گروہ کے کئی افراد مبینہ طور پر افغانستان میں مقیم ہیں۔
تحریک طالبان پاکستان کی بنیاد 2007 میں ڈالی گئی تھی جس کے بعد اس نے پاکستان کے اندر دہشت گردی کی مبینہ کارروائیاں شروع کی تھیں۔
ٹی ٹی پی نے پاکستان کی سیکیورٹی فورسز پر حملوں سمیت پاکستان کے اندر کئی دہشت گرد حملوں کی ذمے داری قبول کی تھی۔ تحریکِ طالبان پاکستان نے دسمبر 2014 میں پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں بھی حملے کی ذمے داری قبول کی تھی جس میں 145 افراد ہلاک ہو گئے تھے جن میں 130 سے زائد بچے شامل تھے۔
پاکستان کی فوج کی جانب سے پاکستان کے علاقے سوات اور قبائلی علاقوں میں آپریشن کے بعد حالیہ عرصے میں ٹی ٹی پی کی کارروائیوں میں کمی آئی تھی۔
اس بات کا خدشہ ظاہر کیا جاتا رہا ہے کہ افغانستان کی بدلتی صورتِ حال میں یہ عناصر پاکستان کے خلاف دوبارہ سرگرم ہوسکتے ہیں۔
ترجمان دفترِ خارجہ نے کہا کہ پاکستان ماضی میں بھی ٹی ٹی پی کی طرف سے افغانستان کی سر زمین استعمال کرنے کی مخالفت کرتا رہا ہے اور ہم افغانستان کے سابقہ حکومت کے ساتھ یہ معاملہ اٹھاتے رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ توقع کرتے ہیں مستقبل میں بھی ان عناصر کو افغانستان کی سر زمین کو پاکستان کے خلاف استعمال نہیں کرنے دیا جائے گا۔
افغانستان میں ایک جامع حکومت کے معاملے پر بات کرتے ہوئے ترجمان دفتر خارجہ زاہد حفیظ چوہدری نے کہا کہ ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اب بھی افغانستان کے مسئلہ کے سیاسی حل کی ضرورت ہے۔ آگے بڑھنے کے لیے ایک جامع سیاسی تصفیہ اور بین الاقوامی برادری کے اتفاق رائے ضروری ہوگا۔
ترجمان نے کہا کہ باقی دنیا کی طرح خطے کے ممالک کے مفاد میں ہے کہ افغانستان میں ہموار طریقے سے اقتدار منتقل ہو اور جنتی جلد ہو سکے ایک جامع سیاسی تصفیے کی طرف پیش رفت ممکن بنائی جائے۔
ان کے بقول افغانستان میں قیامِ امن کے لیے کوشاں متعلقہ فورم اہم ہیں اور سب کو اس میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان افغانستان میں طالبان سمیت تمام فریقین کے ساتھ رابطے میں ہے۔
ٹی ٹی پی کا انتباہ
طالبان کے کابل پر قبضے سے قبل کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے سربراہ مفتی نور ولی محسود نے امریکی نشریات ادارے ’سی این این‘ کو اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ اُن کی جنگ صرف پاکستان کے سیکیورٹی اداروں کے خلاف ہے۔ لہٰذا یہ تاثر درست نہیں کہ ٹی ٹی پی کے جنگجو افغان طالبان کے ساتھ مل کر افغانستان میں لڑ رہے ہیں یا وہ القاعدہ کے ساتھ تعاون کرتے ہیں۔
نور ولی محسود کا کہنا تھا کہ ایک مسلمان کی کامیابی دوسرے مسلمان کے لیے بھی مددگار ہوتی ہے۔ لہٰذا یہ وقت بتائے گا کہ افغان طالبان کی افغانستان میں کامیابیاں تحریک طالبان کے لیے کتنی سود مند ہوں گی۔
مفتی نور ولی محسود 2018 میں ملا فضل اللہ کی افغانستان میں ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد ٹی ٹی پی کے سربراہ بنے تھے۔
واضح رہے کہ طالبان کے کابل کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد سوشل میڈیا پر یہ اطلاعات بھی گردش میں ہیں کہ طالبان نے بگرام جیل سے جن 2300 افراد کو رہا کیا ہے ان میں کالعدم ٹی ٹی پی کے نائب سربراہ کمانڈر فقیر محمد اور تنظیم سے تعلق رکھنے والے دیگر کئی جنگجو بھی شامل ہیں۔
مولوی فقیر محمد کو 2013 میں افغانستان میں کنڑ سے گرفتار کیا گیا تھا۔ بعد ازاں 2018 میں امریکہ کی فوج کے زیرِ انتظام بگرام جیل منتقل کر دیا گیا تھا۔ رپورٹس کے مطابق اس جیل میں ٹی ٹی پی سے تعلق رکھنے والے 200 قیدی موجود تھے۔
سوشل میڈیا پر مولوی فقیر کی جیل سے رہائی کی ویڈیوز اور تصاویر بھی گردش میں ہیں۔