رسائی کے لنکس

پاک بھارت بات چیت ہی خطے کے مفاد میں ہے: مبصرین


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستان کے سابق سیکرٹری خارجہ نجم الدین شیخ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ بھارت کشمیر پر اگر بات چیت کرنا چاہتا ہے تو اسے یہ سمجھنا ہوگا کہ اس کے لیے کشمیریوں کا موقف جاننا بھی ضروری ہے تاکہ اس کے حل میں ان لوگوں کی رائے بھی شامل ہو۔

پاکستان اور بھارت کے قومی سلامتی کے مشیروں کی طے شدہ ملاقات کی منسوخی کا ذمہ دار دونوں ملک ایک دوسرے کو ٹھہرا رہے ہیں لیکن تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ان ایٹمی ہمسایہ قوتوں کو اعتماد سازی پر مبنی سفارتی کوششوں کے ذریعے تناؤ کم کرنا چاہیئے جو کہ پورے خطے کے مفاد میں ہے۔

اس ملاقات کے لیے بھارت نے پاکستان کے مشیر برائے قومی سلامتی سرتاج عزیز کو 23 اور 24 اگست کو نئی دہلی میں مدعو کر رکھا تھا لیکن بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے رہنماؤں کو پاکستانی ہائی کمیشن میں مدعو کرنے کے معاملے پر دونوں جانب سے سخت موقف اپنائے جانے کی وجہ سے قومی سلامتی کے مشیروں کی ملاقات منسوخی پر منتج ہوئی۔

بھارت ان رہنماؤں سے ملاقات کو نامناسب قرار دیتا ہے جب کہ پاکستان کا موقف ہے کہ یہ میل جول ماضی میں بھی ہوتا رہا ہے اور بھارت کی طرف سے اس کی ممانعت اس کے بقول پیشگی شرط سے مشیروں کی ملاقات کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔

بھارت نے گزشتہ سال اگست میں دونوں ملکوں کے خارجہ سیکرٹری سطح کے اسلام آباد میں ہونے والے مذاکرات بھی ایک ایسی ملاقات کے باعث یک طرفہ طور پر منسوخ کر دیے تھے۔

پاکستان کے سابق سیکرٹری خارجہ نجم الدین شیخ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ بھارت کشمیر پر اگر بات چیت کرنا چاہتا ہے تو اسے یہ سمجھنا ہوگا کہ اس کے لیے کشمیریوں کا موقف جاننا بھی ضروری ہے تاکہ اس کے حل میں ان لوگوں کی رائے بھی شامل ہو۔

ان کا کہنا تھا کہ بات چیت کو سفارتی طریقے سے آگے بڑھانے کے لیے دونوں جانب چند بنیادی باتوں پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔

سفارتکاری میں ہمیشہ کوشش یہ ہوتی ہے کہ آپ دوسرے فریق کے ساتھ ان کی پوزیشن کو سمجھنے کی کوشش کریں اور اپنے آپ کو ان کی پوزیشن میں رکھیں اور اسی طرح وہ آپ کی پوزیشن کو اپنائیں تو پھر سمجھ میں آئے گا کہ مصالحت کہاں ہو سکتی ہے لیکن ایک مرتبہ آپ نے عوامی سطح پر کوئی موقف اپنا لیا تو اس سے ہٹنا بہت مشکل ہو جاتا ہے تو مستقبل کے لیے اگراس سے سبق سیکھنا ہے تو وہ یہ ہے کہ سفارتکاری کو سفارتکار کی طرح کرنا چاہیئے۔"

معروف سینیئر بھارتی صحافی اور مصنف کلدیپ نائر کہتے ہیں کہ اختلافات اور مسائل بات چیت کے ذریعے ہی حل ہو سکتے ہیں لیکن کب اور کیسے اس کا فیصلہ دونوں ملکوں کو ہی کرنا ہوگا۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا۔ "میں سمجھتا ہوں کہ بھارت اور پاکستان کے مفاد میں یہی ہے کہ وہ آپس میں بیٹھ کر بات چیت کریں اور مجھےجو (اس خرابی کی) بنیاد لگتی ہے وہ ایک دوسرے پر شک ہے یہ باقی جو چیزیں ہیں کشمیر ہے پانی ہے جب تک شک نہیں جائے گا یہ بد اعتمادی نہیں ختم ہوگی تو بس ایسے ہی چلتا رہے گا۔"

کشمیر دونوں ملکوں کے مابین شروع ہی سے متنازع چلا آرہا ہے۔ پاکستان اس پر بات چیت کو فوقیت دیتا ہے جب کہ بھارت دہشت گردی کے معاملے کو ایجنڈے میں تمام امور سے اوپر رکھنے پر مُصر ہے۔

امریکہ یہ کہہ چکا ہے کہ دونوں ملکوں کو مذاکرات کے ذریعے اپنے اختلافات دور کرنے چاہیئں کیونکہ خطے میں امن و خوشحالی کے لیے پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کا خاتمہ بے حد ضروری ہے۔

XS
SM
MD
LG