اظہار رائے اور معلومات کے آزادانہ حصول کا دفاع کرنے والی بین الاقوامی تنظیموں نے پاکستان میں لاکھوں’’نامناسب‘‘ ویب سائٹس تک رسائی محدود کرنے کے سرکاری ارادوں کی مخالفت اور ان پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔
وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے نام اپنے پیغامات میں پیریس میں قائم ’رپورٹرز وِد آؤٹ بورڈرز‘ اور نیویارک میں قائم ’کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس‘ نے اس منصوبے کو ترک کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس اقدام سے حکومت کی پہلے سے متعارف کردہ اُن کوششوں کو تقویت ملے گی جن کا مقصد پاکستان میں مواصلات کی نگرانی اور انٹرنیٹ پر قدغن لگانا ہے۔
اپنے خطوط میں ان تنظیموں نے دو فروری کو جاری کیے گئے اُس سرکاری ٹینڈر کا حوالہ دیا گیا ہے جس میں نجی شعبے اور تحقیق سے متعلق اداروں کو ایک ایسا نظام معتارف کرانے میں حکومت کی مدد کرنے کی دعوت دی گئی ہے جس سے ’’نامناسب ‘‘ ویب سائٹس تک صارفین کی رسائی کو محدود کرنا ممکن ہو اور جس کے لیے ’’نیشنل یو آر ایل فلٹرنگ اینڈ بلاکنگ سسٹم‘‘ کا نام تجویز کیا گیا ہے۔
’’ہم اس امر کی نشاندہی کرنا چاہیئں گے کہ پاکستان میں ہزاروں ویب سائٹس تک رسائی پر پہلے ہی سے پابندی ہے۔ کچھ حکومت مخالف خاص طور پر بلوچ برادری سے متعلق ویب سائٹس تک رسائی کو ایک متنازع قانون کے تحت ناممکن بنایا جا چکا ہے۔‘‘
رپورٹرز ود آؤٹ بورڈرز نے اپنے خط میں وزیر اعظم گیلانی اور اُن کی حکومت کے دیگر متعلقہ عہدے داروں سے استفسار کیا ہے کہ کس قانون کے تحت وہ دو کروڑ پاکستانیوں کو معلومات تک رسائی سے محروم رکھنے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں؟
’’اس بات کی کیا ضمانت ہو گی کہ مجوزہ نظام سے لوگوں کے ای میل پیغامات، ٹیلی فون، تصاویر، فیس بک اور ٹوئیٹر جیسے سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر پیغام رسانی کی نگرانی نہیں کی جائے گا؟‘‘
تنظیم نے کہا ہے کہ نگرانی کی غیر معمولی وسیع صلاحیتیں رکھنے والے مجوزہ نظام کا قیام ایک ایسے وقت انتہائی پریشانی کا باعث ہے جب پاکستان میں مبینہ طور پر خفیہ ایجنسیوں اور سلامتی سے متعلق اداروں کے ہاتھوں ذرائع ابلاغ سے وابستہ افراد کی زندگیوں کے لیے خطرات میں اضافہ ہوا ہے۔
’’اس قومی انٹرنیٹ فلٹرنگ پراجیکٹ کو ہر صورت ترک کر دیا جائے کیونکہ یہ آپ کے شہریوں کے بنیادی حقوق، بشمول آزادی سے آن لائن معلومات کے حصول اور ذاتی احترام کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔‘‘
نیویارک میں قائم عالمی تنظیم سی پی جے کا کہنا ہے کہ ایک بلا روک ٹوک، مرکزی طور پر کنٹرول کیا جانے والا سنسرشپ کا نظام مقامی آن لائن پریس کی آزادی کی تباہی کا نسخہ ہے۔
’’کمپنیاں، فروخت کنندگان، اور ماہرین تعلیم جو ایسے نظام کی تشکیل میں کردار ادا کرنے کا سوچ رہے ہیں وہ بھی ماضی کے رویے کو پیش نظر رکھتے ہوئے حکومت پاکستان کی طرف سے اس نظام کے غلط استعمال میں شریک کار ہوں گے۔‘‘