رسائی کے لنکس

امریکہ ایران بڑھتی ہوئی کشیدگی پر پاکستان فکرمند


امریکہ نے اپنا طیارہ بردار بحری جہاز اور بمبار طیارے خلیج کے علاقے میں تعینات کر دیے ہیں۔
امریکہ نے اپنا طیارہ بردار بحری جہاز اور بمبار طیارے خلیج کے علاقے میں تعینات کر دیے ہیں۔

امریکہ اور ایران کے درمیان شدت اختیار کرتا ہوا تنازع خطے کے دوسرے ممالک خاص طور پر پاکستان کے لیے تشویش کا باعث بن رہا ہے اور پاکستان اپنے پڑوس میں کشیدہ صورت حال کو اپنی داخلی سلامتی اور معیشت کے لیے ایک خطرے کے طور پر دیکھتا ہے۔

پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی شنگھائی تعاون تنظیم یعنی ’ ایس سی او ‘ کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں شرکت کے لیے منگل کو کرغزستان کے دارالحکومت بشکیک پہنچ گئے ہیں۔

ایس سی او کے وزرائے خارجہ کے دو روزہ اجلاس کے موقع پر پاکستانی وزیر خارجہ اپنی چینی اور روسی منصب سے بھی ملاقات کریں گے۔

شنگھائی تعاون تنظیم کے دو روزہ اجلاس میں اہم مجوزہ دستاویزات کی منظوری دی جائے گی جس کی باقاعدہ منظوری آئندہ ماہ بشکیک میں شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہ اجلاس میں ہو گی جس میں وزیر اعظم عمران خان کی شرکت متوقع ہے۔

اپنے اس دورے میں وہ چین اور روس کے وزرائے خارجہ سے بھی ملاقات کریں گے۔ جو سیکورٹی کونسل کے مستقل ارکان ہیں۔ شاہ محمود قریشی ان سے ایران اور امریکہ کے درمیان کشیدہ صورت حال پر تبادلہ خیال کریں گے

منگل کو بشکیک روانگی سے قبل اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو میں شاہ محمود نے تہران اور واشنگٹن کے درمیان جاری کشیدگی اور مشرق وسطیٰ کی صورت حال پر تشویش کا اظہار کیا اور اس معاملے پر روس اور چین کے وزرائے خارجہ سے بات کرنے کا عندیہ دیا۔

پاکستان کے وزیر خارجہ کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب امریکہ اور ایران کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ جس کا آغاز امریکہ اور ایران کے درمیان گزشتہ سال اس وقت ہوا تھا جب صدر ٹرمپ کی حکومت یک طرفہ طور پر اس جوہری معاہدے سے الگ ہو گئی تھی جو 2015ء میں ایران اور چھ عالمی طاقتوں کے درمیان طے پایا تھا۔

معاہدے سے الگ ہونے کے بعد امریکی حکومت نے ایران پر عائد معاشی پابندیاں بحال کر دیں تھیں جن میں تیل کی برآمدات پر پابندی بھی شامل تھی جو اس مہینے سے موثر ہو گئی ہے۔ جس کے بعد واشنگٹن اور تہران کی باہمی کشیدگی میں کئی گنا اضافہ ہو گیا ہے۔

وائس آف امریکہ نے اس سلسلے میں دو ماہرین انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کے ڈائریکٹر جنرل خالد رحمان اور سینئر سفارتی نامہ نگار ماریانہ بابر سے بات کی ہے۔

انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کے ڈائریکٹر جنرل خالد رحمان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ روس اور چین دونوں اپنی اپنی جگہ اس مسئلے پر ایک رائے رکھتے ہیں لیکن پاکستان، روس اور چین کے درمیان اس حوالے سے رابطوں کی ایک خاص اہمیت ہے، جو یہ ہے کہ اگر خطے کے تینوں ممالک کی ایک مشترکہ حکمت عملی ہو گی، تو اس کا وزن بھی یقینی طور پر زیادہ ہو گا۔ اور روس اور چین، امریکہ کی اس پالیسی کے بارے میں اپنی مخالفت کا اظہار پہلے بھی کر چکے ہیں۔

ماریانہ بابر کا کہنا تھا کہ پاکستان بجا طور پر اپنی تشویش کا اظہار کر رہا ہے اور یہ پیغام بھی دے رہا ہے کہ وہ اس تنازع میں کسی کی طرف داری نہیں کر رہا ہے اور چاہتا ہے کہ جن ملکوں کے درمیان بھی تنازع ہے وہ بات چیت کے ذریعے حل کریں۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان دنیا کو یہ بتا رہا ہے کہ ہم بھی اسی خطے میں رہتے ہیں اور پاکستان سمیت خطے کے ممالک میں یہ خوف پایا جاتا ہے کہ کہیں واقعی جنگ نہ چھڑ جائے۔

خالد رحمان نے پاکستانی وزیر خارجہ کی جانب سے اظہار تشویش کے سلسلے میں کہا کہ دنیا کو اس بارے میں پاکستان کے موقف کو سمجھنا چاہیے کہ پڑوس میں اگر عدم استحکام ہو گا تو پاکستان پر بھی اس کا اثر پڑے گا۔ جو گزشتہ چار عشروں سے افغانستان میں ہونے والے واقعات اور عالمی حالات سے بری طرح متاثر ہوا ہے۔

مزید تفصیلات کے لیے اس آڈیو لنک پر کلک کریں۔

please wait

No media source currently available

0:00 0:02:54 0:00

امریکہ نے حال ہی میں یہ کہتے ہوئے کہ اسے اپنے مفادات اور اتحادیوں پر ایران کی جانب سے خطرہ ہے، اپنا طیارہ بردار جہاز، بمبار طیارے اور دوسرے ہتھیار مشرق وسطیٰ تعینات کر دیے ہیں۔

XS
SM
MD
LG