امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کو متنبہ کیا ہے کہ اگر جنگ ہوئی تو اس کا نتیجہ ایران کا خاتمہ ہو گا۔
صدر ٹرمپ نے اتوار کو اپنے ٹویٹر پیغام میں کہا کہ تہران امریکہ کو دھمکیاں دینا چھوڑ دے اگر ایران جنگ چاہتا ہے تو اس جنگ میں ایران مکمل طور پر تباہ ہو جائے گا۔ تاہم صدر نے اپنے پیغام کی مزید وضاحت نہیں کی۔
اس سے قبل صدر ٹرمپ ایران سے جنگ کے امکان کو رد کرنے کا اعلان کر چکے ہیں۔ تاہم، مبصرین کے نزدیک صدر کا تازہ بیان پالیسی میں تبدیلی کا اشارہ بھی ہو سکتا ہے۔
امریکہ نے مشرق وسطیٰ میں کشیدگی کے پیش نظر جنگی بیڑا بھی خلیج فارس میں تعینات کر دیا ہے جبکہ وہ ایک لاکھ 20 ہزار فوجی بھی خطے میں تعینات کرنے پر غور کر رہا ہے۔
ادھر، امریکی محکمہ خارجہ کے مطابق بغداد میں ہونے والے راکٹ حملے سے امریکی تنصیبات کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ تاہم، امریکہ اس حملے کو نہایت سنجیدگی سے لے رہا ہے۔
محکمہ خارجہ کے عہدیدار نے کہا کہ امریکہ خطے میں اپنی تنصیبات پر حملے برداشت نہیں کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ ایسے حملوں کے ذمہ دار ایران نواز عسکریت پسند گروپ ہیں اور امریکہ ایسی کارروائیوں کا بھرپور جواب دے گا۔
اس سے قبل سعودی عرب کے وزیر خارجہ عادل الجبیر بھی واضح کر چکے ہیں کہ سعودی عرب جنگ میں ملوث نہیں ہونا چاہتا۔ تاہم، وہ کسی بھی جارحیت کا بھرپور جواب دے گا۔
منگل کو سعودی عرب کے آئل پمپنگ اسٹیشنز پر ہونے والے ڈرون حملوں کی ذمہ داری بھی ایران نواز حوثی باغیوں نے قبول کی تھی، جبکہ متحدہ عرب امارات میں خلیج عمان کے قریب دو سعودی آئل ٹینکرز سمیت چار تیل بردار جہازوں میں تخریب کاری کا واقعہ بھی سامنے آیا تھا۔
خطے کی کشیدہ صورتحال کے پیش نظر سعودی عرب کے بادشاہ سلمان بن عبدالعزیز نے عرب ممالک کا اجلاس 30 مئی کو مکہ میں طلب کیا ہے، جبکہ خلیج تعاون کونسل کے رکن ممالک کی فوج نے خلیج عمان میں گشت بڑھا دیا ہے۔
حوثی باغیوں کے زیر اثر خبر رساں ادارے، صبا نیوز کے مطابق حوثی باغیوں کے سربراہ محمد علی حوثی نے سعودی عرب میں تنصیبات کو نشانہ بنانے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ ان کا کہنا تھا یہ شروعات ہے اور وہ سعودی عرب میں فوجی تنصیبات پر مزید حملے کریں گے۔
محمد علی حوثی نے سعودی عرب کی جانب سے طلب کئے گئے عرب ممالک کے اجلاس پر بھی کڑی تنقید کی ہے۔
ایران نے اپنے اوپر لگنے والے امریکہ اور سعودی عرب کے الزامات کو مسترد کیا ہے ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف بھی واضح کر چکے ہیں کہ ایران جنگ نہیں چاہتا۔
ایران اور امریکہ کے درمیان جاری حالیہ کشیدگی ایران پر لگنے والی امریکی پابندیوں کے باعث شروع ہو ئی جس کے تحت امریکہ نے ایران سے تیل درآمد کرنے والے آٹھ ممالک کا استثنی ختم کر دیا تھا۔
گزشتہ سال صدر ٹرمپ یکطرفہ طور پر ایران کے ساتھ طے پانے والے 2015 کے جوہری معاہدے سے بھی الگ ہو گئے تھے، جس کے جواب میں ایران نے بھی جوہری معاہدے سے الگ ہو کر یورینیم کی افزودگی دوبارہ شروع کرنے کی دھمکی دی تھی۔
امریکہ نے واضح کیا تھا کہ وہ خطے میں اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے ہر ممکن اقدامات کرے گا۔