پاکستان کے صدر عارف علوی نے اسرائیل کے ساتھ کسی بھی قسم کے تعلق کے امکان کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہےکہ اسرائیل کے ساتھ کسی قسم کے تعلقات استوار نہیں کیے جارہے۔
اسلام آباد ائیرپورٹ سے ترکی روانگی سے قبل میڈیا سے بات کرت ہوئے صدر عارف علوی نے کہا کہ ایسی کوئی بات زیرغور نہیں ۔کشمیر اور غزہ، دونوں علاقوں میں ہونے والے مظالم دنیا کو بتائے بھی نہیں جاسکتے، اس معاملے پر کسی بحث کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ رپورٹ دینے والے خود بھی اس معاملے پر مطمئن نہیں ۔
پاکستان اور اسرائیل کے درمیان براہ راست کوئی اختلاف نہ ہونے کے باوجود آج بھی دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات پر بات کرنا مشکل نظر آتا ہے۔ایک ایسے وقت میں جب خطے میں تبدیلیاں آرہی ہیں ،پاکستان اور اسرائیل کے تعلقات پر حکومت کو وضاحتی بیانات جاری کرنا پڑ رہے ہیں، سلطنت اومان کی طرف سے اسرائیل کو تسلیم کیے جانے کے حوالے سے بیان اور اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کی سلطان قابوس کے ساتھ ملاقات کے بعد پاکستان بھر میں حکومتی بیانات کو مشکوک انداز میں دیکھا جارہا ہے۔
تجزیہ کار شاہد اقبال کامران کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ اسرائیل ایک حقیقت ہے اور کئی مسلم ممالک کے اس کے ساتھ تعلقات بھی ہیں، ایسی صورتحال میں اسلامی ممالک کو مل کر مسئلہ فلسطین کے لیے اسرائیل پر دباؤ ڈالنا چاہیے، جذبات کی سطح سے ہٹ کر حقیقی فیصلے کرنا ہوں گے۔
پاکستان اور اسرائیل کے درمیان غیراعلانیہ اور پہلا رابطہ سال 2005 میں ہوا جب پاکستانی صدر پرویز مشرف نے امریکہ جیوش سوسائٹی سے خطاب کیا اور اس کے بعد اس وقت کے وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری نے اسرائیلی وزیر خارجہ سلوان شلوم سے استنبول میں ملاقات بھی کی لیکن اس معاملے کو مذہبی نکتہ نظر سے حساس سمجھا جاتا ہے اور مسئلہ فلسطین سے ہٹ کر انتہا پسند مذہبی عناصر کا خوف پاکستانی معاشرہ میں موجود ہے۔
وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے جہلم میں ایک جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھاکہ پاکستان میں بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے حوالےسے یوم سیاہ کو سبوتاژ کرنے لیے یہ شوشہ چھوڑا گیا ہے،اس حوالے سے حکومتی ادارہ سول ایوی ایشن اتھارٹی کی واضح تردید سامنے آچکی ہے جس کے مطابق پاکستانی سرزمین پر کوئی بھی اسرائیلی طیارہ لینڈ نہیں کرسکتا۔
پاکستان اور اسرائیل کے درمیان براہ راست کوئی اختلاف نہ ہونے کے باوجود ایک دوسرے سے دوریاں موجود ہیں اور پاکستان میں اس معاملہ پر بات کرنا ذاتی سلامتی کو خطرے میں ڈالنا شمار ہوتا ہے، اسی وجہ سے آج بھی پاکستانی پاسپورٹ پر لکھا ہے کہ ماسوائے اسرائیل کے یہ پاسپورٹ پوری دنیا میں قابل استعمال ہے تاہم عالمی منظرنامے میں آنے والی تبدیلیوں کے باعث سوچا جاسکتا ہے کہ مستقبل میں شاید دونوں ممالک ایک دوسرے کے قریب آسکیں۔