پاکستان نے مشتبہ شدت پسندوں کے تعاقب میں دو مرتبہ اپنی فضائی حدود کی خلاف ورزی پر افغانستان میں موجود ایساف فورسز سے شدید احتجاج کیا ہے ۔
پاکستانی دفتر خارجہ سے پیر کو جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ ہیلی کاپٹروں سے کی جانے والی یہ کارروائیاں اقوام متحدہ کی طرف سے ایساف کو حاصل اختیار ات کی کھلی خلاف ورزی ہیں اور اگر اس طرح کے واقعات روکنے کے لیے فوری اقدمات نہیں کیے گئے تو پاکستان کو مجبوراً جوابی کارروائی کے بارے میں سوچناہوگا۔
بیان کے مطابق عالمی ادارے کی طرف سے غیر ملکی افواج کو کارروائی کرنے کا حق افغانستان کی سرحدتک محدود ہے اور جنگجوؤں کا پیچھا کرتے ہوئے پاکستانی حدود میں عملی کارروائی کے قواعد پر کوئی معاہدہ نہیں ہے۔
دفتر خارجہ سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ ”Hot Pursuit“کے بارے میں جو تاثر پیش کیا جارہا ہے وہ حقیقت کے برعکس ہے اور اس طرح کے اقدامات پاکستان کی علاقائی خودمختاری کی خلاف ورزی ہیں اور یہ نا قابل قبول ہیں۔
ایساف اور نیٹو افوا ج سے کہا گیا ہے کہ وہ کسی ایسی فوجی کارروائی میں حصہ نہ لیں جس سے ا قوام متحدہ کی طرف سے دیے گئے اختیارات اور پاکستان کی علاقائی حدود کی خلاف ورزی ہوتی ہو۔
بیان میں کہا گیا کہ پاکستان نے ہمیشہ خطے اور عالمی امن کے لیے خطرہ سمجھی جانے والی طاقتوں کے خلاف مشترکہ اور منظم کارروائی پر زوردیا ہے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کی بہت بڑی قیمت ادا کی ہے۔ بیان میں اعتماد کے فقدان میں کمی اور پاکستانی مسلح افواج کی صلاحیت بڑھانے پر بھی زور دیا گیا ہے جب کہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ حالیہ واقعے پر برسلز میں نیٹو کے صدر دفتر کو ایک احتجاجی مراسلہ بھی ارسال کیا گیا ہے۔
اس سے قبل افغانستان میں تعینات بین الاقوامی افوج ”ایساف“ نے تصدیق کی تھی کہ پاکستان کے قبائلی علاقے میں دو روز قبل نیٹوافواج کے ہیلی کاپٹروں نے کارروائی کرکے لگ بھگ 30 شدت پسندوں کو ہلاک کیا تھا۔
بین الاقوامی افواج کے مطابق جمعہ کے روز افغان صوبہ خوست میں سکیورٹی فورسز کی ایک چیک پوسٹ پر شدت پسندوں کے حملے کے جواب میں دو فوجی ہیلی کاپٹروں سے یہ فضائی حملہ کیا گیا۔ بیان کے مطابق دو ہیلی کاپٹروں نے ہفتے کے روز بھی اُسی علاقے میں مزید چار جنگجوؤں کو ہلاک کیا لیکن ایساف فورسز نے یہ نہیں بتایا کہ حملے کے وقت ہیلی کاپٹر پاکستانی حدود میں پرواز کر رہے تھے یا نہیں۔
ایساف کے بیان میں کہا گیا ہے کہ ہیلی کاپٹروں سے کی جانے والی کارروائی لڑائی کے لیے وضع کردہ اصولوں کے مطابق کی گئی۔
افغان سرحد سے ملحقہ قبائلی علاقوں میں بغیر پائلٹ کے مبینہ امریکی جاسوس طیاروں یا ”ڈرونز“ سے شدت پسندوں کے ٹھکانوں کونشانہ بنایاجاتا رہا ہے لیکن غیر ملکی فوجیوں کی طرف سے پاکستانی حدود میں داخل ہو کر ایسی کارروائیوں کی مثال کم ملتی ہے۔ تاہم امریکی فوج نے جنوبی وزیرستان میں ستمبر 2008ء میں ایک کارروائی کی تھی جس پر اسلام آباد نے پرزور احتجاج کے ساتھ ساتھ متنبہ کیا تھا کہ اگر آئندہ ایسا اقدام کیا گیا تو پاکستان کی سکیورٹی فورسز مزاحمت کرسکتی ہیں۔