حکومت کی طرف سے صحافی سلیم شہزاد کے قتل کی تحقیقات سپریم کورٹ کے جج کی سربراہی میں کرانے کے اعلان کے بعد صحافیوں نے اپنا احتجاجی دھرنا ختم کرنے کا اعلان کردیا۔ تاہم ایک بیان میں جسٹس ثاقب نثار نے کمیشن کا سربراہ بننے سے انکار کردیا۔ کیونکہ انکے مطابق کمیشن کو چیف جسٹس کی منظوری حاصل نہیں۔
جمعرات کو علی الصبح وفاقی وزیراطلاعات فردوس عاشق اعوا ن نے پارلیمنٹ کے سامنے دھرنے میں شامل صحافیوں سے ملاقات کے بعد اعلان کیا تھا کہ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے عدالت عظمیٰ کے جج جسٹس ثاقب نثار کو سلیم شہزاد قتل کیس کے لیے قائم تحقیقاتی کمیشن کا سربراہ مقرر کر دیاہے ۔ اس اعلان کے بعد پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے صدر پرویز شوکت نے دھرنا ختم کرنے کا اعلان کیا۔
سرکاری بیان کے مطابق جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں قائم اس کمیشن کے دیگر ممبران میں وفاقی شرعی عدالت کے چیف جسٹس آغا رفیق احمد خان ، ایڈیشنل انسپکٹر جنرل (انوسٹیگیشن)پنجاب پولیس اور ڈپٹی انسپکٹر جنرل اسلام آباد پولیس شامل ہیں ۔
ایشیا ٹائمز آن لائن کے پاکستان میں بیورو چیف سلیم شہزاد 29 مئی کو اسلام آباد میں اپنی رہائش گاہ سے ایک مقامی نیوز چینل کے مذاکرے میں شرکت کے لیے جاتے ہوئے لاپتہ ہو گئے جس کے دو روز بعد اُن لاش منڈی بہاؤالدین کے نواح میں ایک نہر سے ملی تھی۔ اُن کے قتل کے بعد پاکستان کی صحافتی تنظیموں نے حکومت سے اس واقعہ کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کے جج کی سربراہی میں ایک کمیشن کی تشکیل کا مطالبہ کیا تھا۔
حکومت نے ان مطالبات کے جواب میں کمیشن تو قائم کردیا تھا لیکن اُس کی سربراہ وفاقی شرعی عدالت کے چیف جسٹس آغا رفیق احمد کو بنایاجسے صحافیوں کی تنظیموں نے یہ کہہ کر ماننے سے انکار کر دیا تھا کہ آئین کے تحت وفاقی شرعی عدالت کے جج کے اختیارات محدودہوتے ہیں۔
تاہم پاکستان فیڈ رل یونین آف جرنلسٹس یا پی ایف یو جے کی کال پر بدھ کو پارلیمنٹ ہاؤ س کے سامنے دھرنے کے آغاز کے بعد حکومت نے صحافیوں کے مطالبے کو تسلیم کر لیا۔
یہ بھی پڑھیے
مقبول ترین
1