پراسرار گمشدگی کے بعد قتل ہونے والے صحافی سلیم شہزاد کو بدھ کے روز کو کراچی میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ اُن کی میت کو صوبہ پنجاب کے علاقے منڈی بہاالدین سے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد منتقل کرکے آج صبح کراچی پہنچایا گیا تھا۔
سلیم شہزاد کے قتل کے خلاف بدھ کو صحافیوں نے ملک گیر احتجاجی مظاہرے کیے اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ اس واقعہ میں ملوث افراد کی جلد ازجلد نشان دہی کرکے اُنھیں انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔ بین الاقوامی صحافتی تنظیموں کے علاوہ مختلف حلقوں اور رہنماؤں کی طرف سے بھی سلیم شہزاد کے قتل کی شدید مذمت جاری ہے ۔
وفاقی وزیر اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو میں کہا کہ سلیم شہزاد کے قتل کے واقعہ کی تحقیقات کے لیے مشترکہ ٹیم تشکیل دے دی گئی ہے۔
پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے صدر پرویز شوکت نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اس واقعہ کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا جائے۔
امریکی وزیرِخارجہ ہلری کلنٹن نے سلیم شہزاد کے اغواء اور قتل کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے اور کہا ہے اُنھوں نے دہشت گردی اور خفیہ اداروں کے بارے میں رپوٹنگ کرکے پاکستان کے استحکام کو درپیش خطرات کو اجاگر کیا۔
سلیم شہزاد اتوار کی شب اُس وقت لاپتا ہو گئے تھے جب وہ اسلام آباد کے سیکٹر ایف ایٹ میں واقعہ اپنی رہائش گاہ سے ایک نجی ٹی وی چینل ’دنیا نیوز‘ کے پروگرام میں شرکت کے لیے جا رہے تھے۔ گمشدگی کے بعد اُن کی لاش منڈی بہاؤالدین سے ملی تھی۔
صحافی سلیم شہزاد کی پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق ان کے جسم پر زخموں کے متعدد نشانات تھے اور ان کی موت دل کے قریب ضرب لگنے سے ہوئی۔ وہ ہانگ کانگ میں واقع ایشیا ٹائمز آن لائن کے پاکستان میں بیورو چیف تھے۔
صحافیوں کی عالمی تنظیموں”رپورٹرز ود آوٹ بارڈر“ اور”کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس “ کے مطابق پاکستان صحافیوں کے لیے خطرناک ترین ملک بن چکا ہے۔ پاکستان میں 2010ء کے دوران کل 12 صحافی پیشہ وارانہ فرائض انجام دیتے ہوئے ہلاک ہوئے تھے جب کہ اس سال اب تک چھ صحافی ہلاک ہو چکے ہیں۔