لاہور ہائی کورٹ نے کہا ہے کہ زیر حراست امریکی محکمہ خارجہ کے اہلکار ریمنڈ ڈیوس کے سفارتی استثنا کا فیصلہ ماتحت عدالت کرے گی جس کے سامنے دوہرے قتل کے الزامات کی سماعت جاری ہے۔
پیر کو امریکی اہلکار کے سفارتی استثنا سے متعلق درخواستوں پر عدالتی کارروائی نمٹاتے ہوئے لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اعجاز چودھری کا کہنا تھا کہ ”یہ معاملہ ٹرائل کورٹ میں ہے ... وہی استثنا کا فیصلہ کرے گی۔“
امریکہ کا موقف ہے کہ ریمنڈ ڈیوس ایک سفارت کار ہے اور اس کی گرفتاری خلاف قانون کی گئی ہے۔ واشنگٹن مسلسل اپنے اہلکار کی رہائی کا مطالبہ کر رہا ہے لیکن پاکستانی حکومت کا کہنا ہے کہ اُس کے مستقبل کا فیصلہ عدالت کرے گی۔
لاہور ہائی کورٹ نے وفاقی وزارت خارجہ کو ریمنڈ ڈیوس کے سفارتی استثنا پر اپنا حتمی موقف پیش کرنے کا حکم دے رکھا تھا تاہم اطلاعات کے مطابق پیر کو سماعت کے دوران اس بارے میں کوئی واضح جواب نہیں دیا گیا۔
لاہور کی ایک ذیلی عدالت میں ریمنڈ ڈیوس کے خلاف دوہرے قتل کے الزامات کی آئندہ سماعت بدھ کے روز ہوگی۔
امریکی اہلکار کا کہنا ہے کہ اُس نے 27 جنوری کو لاہور کے مصروف علاقے قرطبہ چوک میں دونوں مسلح پاکستانی نوجوانوں پر اپنے ذاتی دفاع میں گولیاں چلائی تھیں کیوں کہ وہ اُس کو لوٹنا چاہتے تھے۔ تاہم لاہور پولیس نے زیر حراست امریکی کے موقف کو مسترد کرتے ہوئے واقعے کو قتل کی واردات قرار دیا ہے۔
دریں اثنا پیر کو وفاقی کابینہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے ایک مرتبہ پھر کہا کہ زیر حراست امریکی اہلکار کے معاملے کو ”عوام کی خواہشات اور ملک کے بہترین مفاد “ کو مد نظر رکھتے ہوئے حل کیا جائے گا۔ ”امریکی باشندے کو سفارتی استثنا دینے کے لیے کوئی جعلی دستاویزات تیار نہیں کی جا رہی ہیں اورنا ہی عوامی خواہشات اور ملکی قوانین کے برخلاف پس پردہ کوئی معاہدے کیے جا رہے ہیں۔“
ناقدین کا کہنا ہے کہ حکومتِ پاکستان اور عدلیہ کی جانب سے ہچکچاہٹ کا مظاہرہ اس معاملے کی سنگین نوعیت کی نشاندہی کرتا ہے۔
ریمنڈ ڈیوس کی گرفتاری کے بعد سے پاکستان اور امریکہ کے خفیہ اداروں انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) اور سنٹرل انٹیلی جنس (سی آئی اے) کے درمیاں تعلقات تناؤ کا شکار ہیں۔