چکوٹھی —
کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کر نے والی حد بندی پر پاکستان اور بھارت کی افواج کے درمیان حالیہ دنوں میں پیدا ہونے والی کشیدگی کے باعث سرحدی علاقوں کے رہائشیوں میں خوف وہراس پایا جاتا ہے۔
دونوں ہمسایہ ایٹمی طاقتوں کے درمیاں یہاں 2003ء میں فائر بندی کا معاہدہ ہوا تھا۔
کنٹرول لائن پر پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں سینکڑوں دیہات اور قصبے آباد ہیں جن میں سے ایک قصبہ چکوٹھی بھی ہے۔
فائر بندی کے معاہدے سے قبل یہ علاقہ مخالف افواج کے درمیان جھڑپوں کے دوران شدید گولہ باری کی زد میں آ کر شدید متاثر ہوا تھا اور یہاں سے لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوگئے تھے۔
حالیہ کشیدگی کی وجہ سے اس قصبے کے لوگ ایک بار پھر سہمے ہوئے نظر آتے ہیں اور انھیں یہ خدشہ لاحق ہے کہ کہیں انھیں پھر اپنا گھر بار نہ چھوڑنا پڑ جائے۔
41 سالہ تاجر خوشحال خان کہتے ہیں کنٹرول لائن پر فا ئرنگ کا تبادلے سے ایسے حالات پیدا ہو گئے ہیں کہ ان کا کاروبار بھی متاثر ہو رہا ہے۔
چکوٹھی میں تدریس کے شعبے سے منسلک سینئر مدرس گل حسن نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ’’کنٹرول لائن کے حالات ٹھیک نہیں ہیں ۔غیر یقینی صورتحال ہے اور رات کے وقت بڑے ہتھاروں سے فائرنگ کی آوازیں بھی آتی ہیں۔‘‘
سعودی عرب سے عید منانے اپنے آبائی قصبے آنے والے محمد زاہد رحیم کو خدشہ ہے کہ ایک بار پھر مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ ’’ایک بار پھر ہستے بستے گھر اور بازار اُجڑیں گئے۔‘‘
وہ کہتے ہیں کہ جب تک کشمیر کا تنازع حل نہیں ہوتا اُس وقت تک سرحدی علاقوں کے لوگوں کو مستقل امن نہیں مل سکتا۔
740کلومیٹر طویل اس عارضی حد بندی یعنی لائن آف کنٹرول جنت نظیر کہلانے والے کشمیر کو پاکستان اور بھارت کے درمیان تقسیم کرتی ہے۔ یہاں 1990ء سے 2003ء تک دونوں ملکوں کی افواج کے درمیان تواتر سے جاری رہنے والی جھڑپوں کے باعث سینکڑوں افراد ہلاک و زخمی ہوچکے ہیں۔
دونوں ہمسایہ ایٹمی طاقتوں کے درمیاں یہاں 2003ء میں فائر بندی کا معاہدہ ہوا تھا۔
کنٹرول لائن پر پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں سینکڑوں دیہات اور قصبے آباد ہیں جن میں سے ایک قصبہ چکوٹھی بھی ہے۔
فائر بندی کے معاہدے سے قبل یہ علاقہ مخالف افواج کے درمیان جھڑپوں کے دوران شدید گولہ باری کی زد میں آ کر شدید متاثر ہوا تھا اور یہاں سے لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوگئے تھے۔
حالیہ کشیدگی کی وجہ سے اس قصبے کے لوگ ایک بار پھر سہمے ہوئے نظر آتے ہیں اور انھیں یہ خدشہ لاحق ہے کہ کہیں انھیں پھر اپنا گھر بار نہ چھوڑنا پڑ جائے۔
41 سالہ تاجر خوشحال خان کہتے ہیں کنٹرول لائن پر فا ئرنگ کا تبادلے سے ایسے حالات پیدا ہو گئے ہیں کہ ان کا کاروبار بھی متاثر ہو رہا ہے۔
چکوٹھی میں تدریس کے شعبے سے منسلک سینئر مدرس گل حسن نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ’’کنٹرول لائن کے حالات ٹھیک نہیں ہیں ۔غیر یقینی صورتحال ہے اور رات کے وقت بڑے ہتھاروں سے فائرنگ کی آوازیں بھی آتی ہیں۔‘‘
سعودی عرب سے عید منانے اپنے آبائی قصبے آنے والے محمد زاہد رحیم کو خدشہ ہے کہ ایک بار پھر مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ ’’ایک بار پھر ہستے بستے گھر اور بازار اُجڑیں گئے۔‘‘
وہ کہتے ہیں کہ جب تک کشمیر کا تنازع حل نہیں ہوتا اُس وقت تک سرحدی علاقوں کے لوگوں کو مستقل امن نہیں مل سکتا۔
740کلومیٹر طویل اس عارضی حد بندی یعنی لائن آف کنٹرول جنت نظیر کہلانے والے کشمیر کو پاکستان اور بھارت کے درمیان تقسیم کرتی ہے۔ یہاں 1990ء سے 2003ء تک دونوں ملکوں کی افواج کے درمیان تواتر سے جاری رہنے والی جھڑپوں کے باعث سینکڑوں افراد ہلاک و زخمی ہوچکے ہیں۔