اسلام آباد —
پاکستان کے اقتصادی مرکز کراچی میں ایک بم دھماکے میں ہلاک ہونے والے پولیس کے اعلیٰ عہدیدار چودھری اسلم کی نماز جنازہ جمعہ کو ادا کر دی گئی جب کہ ملک کے ایوان بالا یعنی’سینیٹ‘ کے علاوہ اور سیاسی و عسکری قیادت نے اس پولیس افسر کی خدمات کو سراہتے ہوئے خراج عقیدت پیش کیا ہے۔
جمعرات کی شام سپرنٹنڈنٹ پولیس چودھری اسلم کے قافلے کے قریب ہونے والے بم دھماکے میں وہ اپنے محافظ اور ڈرائیور سمیت ہلاک ہوگئے تھے۔
جمعہ کو سینیٹ میں چودھری اسلم کی ہلاکت پر ایک تعزیتی قرارداد متفقہ طور پر منظور کی گئی اور اس واقعے میں ہلاک ہونے والوں کو خراج تحسین پیش کیا گیا۔
سینیٹر سعید غنی نے ایوان میں قرارداد پیش کی جس میں شدت پسندوں کے حملوں کو ظالمانہ قرار دیتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ چوہدری اسلم کے اہلخانہ اور دیگر افسران کی حفاظت کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جائیں۔
عوامی نیشنل پارٹی کے سینیٹر زاہد خان نے قرار داد کی منظوری کے بعد وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ’’چودھری اسلم ایک بہادر انسان تھے، اُن کے گھر پر بھی حملہ لیکن اس کے باوجود وہ کہتے رہے کہ (دہشت گردوں) سے لڑتا رہوں گا۔‘‘
پاکستان کے صدر ممنون حسین اور وزیراعظم نواز شریف نے چودھری اسلم کی بم حملے میں ہلاکت کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ایک بہترین پولیس افسر اور بہادر انسان تھے اور اس واقعے سے دہشت گردی کے خلاف حکومت کی کوششیں متاثر نہیں ہوں گی۔
ملک کی بری فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے بھی اپنے پیغام میں چودھری اسلم پر ہونے والے حملے کی مذمت کی۔ انھوں نے انسداد دہشت گردی کی جنگ میں پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے کردار کا اعتراف کرتے ہوئے ہلاک ہونے والے سپرنٹنڈنٹ پولیس اور ان کے ساتھیوں کو خراج عقیدت پر پیش کیا۔
جنرل راحیل شریف کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کی لعنت کے خاتمے کے لیے پوری قوم متحد ہے۔
مختلف سیاسی رہنماؤں کی طرف سے چودھری اسلم کو دہشت گردوں کے لیے خوف کی علامت قرار دیتے ہوئے اُنھیں ایک نڈر پولیس افسر کے طور پر خراج عقیدت پیش کیا۔
سندھ پولیس کے شعبہ کرائمز اینڈ انویسٹی گیشن کے ایس پی چودھری اسلم کراچی میں دہشت گردوں کے خلاف کامیاب کارروائی کرتے آرہے تھے جس پر انھیں شدت پسندوں کی طرف سے دھمکیاں بھی ملتی رہی ہیں۔
اس جان لیوا حملے سے قبل چودھری اسلم پر متعدد قاتلانہ حملے ہو چکے تھے لیکن وہ ان میں محفوظ رہے۔ ستمبر 2011ء میں کراچی ڈیفنس میں واقع ان کی رہائش گاہ پر بھی شدت پسندوں نے خودکش حملہ کیا تھا جس میں چودھری اسلم اور ان کے اہل خانہ تو محفوظ رہے لیکن گھر کا ایک بڑا حصہ منہدم ہو گیا تھا۔
کراچی پولیس کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے صحافیوں کو بتایا کہ اس واقعے سے چند روز قبل چودھری اسلم نے انھیں بتایا تھا کہ تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے انھیں فون کر کے اپنی کارروائی سے باز رہنے یا پھر نتائج کے لیے تیار رہنے کی دھمکی دی تھی۔
تحریک طالبان پاکستان نے جمعرات کو ہونے والے بم دھماکے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
اب تک کی تحقیقات میں پولیس حکام کے مطابق جائے وقوع سے مختلف شواہد جمع کیے جا چکے ہیں۔
چودھری اسلم کا تعلق خیبر پختونخواہ کے علاقے مانسہرہ سے تھا۔
جمعرات کی شام سپرنٹنڈنٹ پولیس چودھری اسلم کے قافلے کے قریب ہونے والے بم دھماکے میں وہ اپنے محافظ اور ڈرائیور سمیت ہلاک ہوگئے تھے۔
جمعہ کو سینیٹ میں چودھری اسلم کی ہلاکت پر ایک تعزیتی قرارداد متفقہ طور پر منظور کی گئی اور اس واقعے میں ہلاک ہونے والوں کو خراج تحسین پیش کیا گیا۔
سینیٹر سعید غنی نے ایوان میں قرارداد پیش کی جس میں شدت پسندوں کے حملوں کو ظالمانہ قرار دیتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ چوہدری اسلم کے اہلخانہ اور دیگر افسران کی حفاظت کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جائیں۔
عوامی نیشنل پارٹی کے سینیٹر زاہد خان نے قرار داد کی منظوری کے بعد وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ’’چودھری اسلم ایک بہادر انسان تھے، اُن کے گھر پر بھی حملہ لیکن اس کے باوجود وہ کہتے رہے کہ (دہشت گردوں) سے لڑتا رہوں گا۔‘‘
پاکستان کے صدر ممنون حسین اور وزیراعظم نواز شریف نے چودھری اسلم کی بم حملے میں ہلاکت کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ایک بہترین پولیس افسر اور بہادر انسان تھے اور اس واقعے سے دہشت گردی کے خلاف حکومت کی کوششیں متاثر نہیں ہوں گی۔
ملک کی بری فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے بھی اپنے پیغام میں چودھری اسلم پر ہونے والے حملے کی مذمت کی۔ انھوں نے انسداد دہشت گردی کی جنگ میں پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے کردار کا اعتراف کرتے ہوئے ہلاک ہونے والے سپرنٹنڈنٹ پولیس اور ان کے ساتھیوں کو خراج عقیدت پر پیش کیا۔
جنرل راحیل شریف کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کی لعنت کے خاتمے کے لیے پوری قوم متحد ہے۔
مختلف سیاسی رہنماؤں کی طرف سے چودھری اسلم کو دہشت گردوں کے لیے خوف کی علامت قرار دیتے ہوئے اُنھیں ایک نڈر پولیس افسر کے طور پر خراج عقیدت پیش کیا۔
سندھ پولیس کے شعبہ کرائمز اینڈ انویسٹی گیشن کے ایس پی چودھری اسلم کراچی میں دہشت گردوں کے خلاف کامیاب کارروائی کرتے آرہے تھے جس پر انھیں شدت پسندوں کی طرف سے دھمکیاں بھی ملتی رہی ہیں۔
اس جان لیوا حملے سے قبل چودھری اسلم پر متعدد قاتلانہ حملے ہو چکے تھے لیکن وہ ان میں محفوظ رہے۔ ستمبر 2011ء میں کراچی ڈیفنس میں واقع ان کی رہائش گاہ پر بھی شدت پسندوں نے خودکش حملہ کیا تھا جس میں چودھری اسلم اور ان کے اہل خانہ تو محفوظ رہے لیکن گھر کا ایک بڑا حصہ منہدم ہو گیا تھا۔
کراچی پولیس کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے صحافیوں کو بتایا کہ اس واقعے سے چند روز قبل چودھری اسلم نے انھیں بتایا تھا کہ تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے انھیں فون کر کے اپنی کارروائی سے باز رہنے یا پھر نتائج کے لیے تیار رہنے کی دھمکی دی تھی۔
تحریک طالبان پاکستان نے جمعرات کو ہونے والے بم دھماکے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
اب تک کی تحقیقات میں پولیس حکام کے مطابق جائے وقوع سے مختلف شواہد جمع کیے جا چکے ہیں۔
چودھری اسلم کا تعلق خیبر پختونخواہ کے علاقے مانسہرہ سے تھا۔