پاکستان کے صوبہ سندھ میں برسر اقتدار جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے کراچی کے مسائل کے حل میں حائل قانونی پیچدگیاں دور کرنے کے لیے تجاویز تیار کرنے سے متعلق وفاق کی 'کراچی اسٹریٹیجی کمیٹی' کے قیام پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
صوبائی وزیر اطلاعات سعید غنی کا کہنا ہے کہ صوبے کے عوام نے پیپلز پارٹی کو مینڈیٹ دیا ہے اور قانون اور آئین کے برخلاف صوبے میں متوازی نظام برداشت نہیں کیا جائے گا۔
وفاقی وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم نے نجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ کراچی میں آئین کے آرٹیکل 149 کا اطلاق کیا جائے گا۔
سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت کیا کہتی ہے؟
وفاقی حکومت کی جانب سے ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کے مسائل حل سے متعلق قائم کردہ کمیٹی پر سندھ میں برسر اقتدار جماعت پیپلز پارٹی نے شدید احتجاج کرتے ہوئے اسے مسترد کر دیا ہے۔
صوبائی حکومت کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت نے کمیٹی جلد بازی میں بنائی ہے اور اس پر صوبائی حکومت سے کوئی مشاورت بھی نہیں کی گئی۔
صوبائی وزیر اطلاعات سعید غنی نے اسے وفاقی حکومت کی 'ڈرامے بازی' سے تعبیر کرتے ہوئے کہا کہ اس سے قبل بھی حکومت ایسے کئی اعلانات کر چکی ہے لیکن عمل درآمد نظر نہیں آتا۔
سعید غنی کے مطابق کراچی کے مسائل حل کرنے سے متعلق قائم کردہ وفاقی کمیٹی وفاق میں برسر اقتدار حکومتی اتحادی جماعتوں اور سندھ اسمبلی کی اپوزیشن جماعتوں پر مشتمل ہے
ان کے بقول کوئی بھی آئینی اور قانونی صوبائی حکومت یہ برداشت نہیں کر سکتی کہ ایسی کمیٹی کو انتظامی اختیارات دے کر صوبائی حکومت کے متوازی کوئی نظام چلایا جائے۔
انہوں نے کہا کہ قانون اور آئین کے مطابق اس سلسلے میں بہت سارے کام صوبائی حکومت کی رضامندی کے بغیر نہیں ہو سکتے کیونکہ سندھ کے عوام نے پیپلز پارٹی کو مینڈیٹ دے رکھا ہے۔
سعید غنی کا مزید کا کہنا ہے کہ آئین کے تحت اگر وفاقی حکومت، سندھ حکومت کی مدد کرنا بھی چاہتی ہے تو وہ اس کے لیے تیار ہیں کیونکہ صوبائی حکومت تو چاہتی ہے کہ وفاقی حکومت کراچی کو اضافی پانی کی فراہمی، سیوریج نظام اور دیگر کاموں کے لیے فنڈز فراہم کرے۔ لیکن اگر قانون اور آئین کی بجائے اپنی مرضی اور منشاء سے کام کیا جائے گا تو اس کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ صوبائی حکومت کراچی کی بہتری کے لیے اپنے حصے سے زیادہ کام کر رہی ہے اور گزشتہ چند سالوں میں شہر میں 100 ارب روپے کے لگ بھگ کے ترقیاتی کام کیے گئے ہیں۔
ان کے بقول کراچی میں مزید ترقیاتی کام ایشیائی ترقیاتی بینک اور عالمی بینک کے تعاون سے جاری ہیں جن کا وفاقی حکومت سوچ بھی نہیں سکتی۔ جب کہ دوسری جانب تحریک انصاف کی وفاقی حکومت نے اب تک محض اعلانات ہی کیے ہیں۔
وفاقی حکومت کا کہتی ہے؟
گورنر سندھ عمران اسماعیل نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کراچی میں ایک درجن کے لگ بھگ وفاقی اور صوبائی حکومت کی لینڈ ایجنسیاں کام کرتی ہیں جس کی وجہ سے اکثر مسائل کے حل میں پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ وزیر اعظم عمران خان کی قائم کردہ کمیٹی کا مقصد مسائل کی راہ میں حائل قانونی پیچیدگیوں کا حل تلاش کرنا ہے۔
عمران اسماعیل نے اس تاثر کو رد کیا کہ اس کمیٹی کا مقصد 18ویں آئینی ترمیم کے تحت صوبائی حکومت کو حاصل کردہ اختیارات میں کمی کرنا ہے۔
گورنر سندھ کا مزید کہنا تھا کہ کمیٹی اپنی رپورٹ وزیر اعظم کو دس بارہ روز میں پیش کرے گی جو وزیر اعلیٰ سندھ کو بھی بھیجی جائے گی۔ اُن کے مطابق اس کمیٹی کا کوئی اور مقصد نہیں اور اس کے بعد یہ کمیٹی تحلیل ہو جائے گی۔
کراچی میں آرٹیکل 149 کا اطلاق کیا جائے گا: وفاقی وزیر قانون
پاکستان کے وفاقی وزیر قانون اور ایم کیو ایم سے تعلق رکھنے والے بیرسٹر فروغ نسیم نے نجی ٹی وی 92 نیوز کے ایک پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ وفاقی حکومت کراچی میں آرٹیکل 149 کا اطلاق کرے گی جس کے تحت وفاقی حکومت، کسی بھی قومی نوعیت کے مسئلے جس کا تعلق ملکی سلامتی، معاشی مسئلے یا کسی انتہائی خراب صورت حال سے ہو، اس پر صوبائی حکومت کو ایڈوائس جاری کر سکتی ہے۔
اس قانون کے تحت وفاقی حکومت کی انتظامی اتھارٹی کسی بھی صورت میں صوبائی انتظامی اتھارٹی سے زیادہ بااثر ہوگی۔ تاہم اب تک یہ واضح نہیں ہو سکا کہ آئین کی اس شق کو وفاقی حکومت کس طرح نافذ کرے گی۔
وزیر اعظم کی قائم کردہ کراچی اسٹریٹیجک کمیٹی کیا ہے؟
وزیر اعظم عمران خان نے گزشتہ ہفتے کراچی کے مسائل کے حل سے متعلق وفاقی وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم کی سربراہی میں ایک اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی قائم کی تھی، جس میں تحریک انصاف اور حکومتی اتحادی جماعت متحدہ قومی موومنٹ کے ارکان قومی اسمبلی کے علاوہ فوج کے سول ورکس کے ادارے فرنٹئیر ورکس آرگنائزیشن کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل انعام حیدر ملک بھی شامل ہیں۔
تحریک انصاف کی جانب سے 2018 میں بھی کراچی ٹرانسفارمیشن کمیٹی قائم کی گئی تھی جس میں صوبائی حکومت کو اپنے دو اراکین شامل کرنے کے لیے کہا گیا تھا لیکن صوبائی حکومت نے کمیٹی پر اعتراض کرتے ہوئے اس میں اپنے ارکان شامل نہیں کیے تھے۔
صوبائی حکومت کے بقول نئی کمیٹی کے قیام میں صوبائی حکومت سے وفاقی حکومت نے کوئی مشاورت نہیں کی ہے۔
کراچی کے مسائل کیا ہیں؟
پاکستان کا سب سے بڑا شہر کراچی ایک رپورٹ کے مطابق رہائش کے لحاظ دنیا کے دس بدترین شہروں میں شامل ہے۔ حالیہ مردم شماری کے مطابق شہر کی آبادی ایک کروڑ 91 لاکھ ہے جسے اس کی ضرورت سے 56 فیصد کم پانی فراہم کیا جا رہا ہے۔
شہر کے اکثر علاقوں میں برسوں سے پانی نہیں آ رہا جب کہ بعض علاقے ایسے بھی ہیں جہاں 24 گھنٹے پانی موجود رہتا ہے۔
شہر میں پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام نہ ہونے کے برابر ہے اور لوگوں کی ایک بڑی تعداد پرائیویٹ ٹرانسپورٹ یا اپنی ذاتی گاڑیوں میں سفر کرنے پر مجبور ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومت کے تحت پبلک ٹرانسپورٹ کے کئی منصوبے عرصے سے زیر تکمیل ہیں۔
اسی طرح کراچی میں روزانہ 12 سے 13 ہزار ٹن کچرا پیدا ہوتا ہے جسے ٹھکانے لگانے کے لیے درپیش مشکلات کا ایک بڑا حصہ وسائل کی کمی، عدم صلاحیت اور کئی دیگر وجوہات شامل ہیں۔ جس سے شہر میں گندگی، اور وبائی امراض میں اضافہ ہو رہا ہے۔
حالیہ بارشوں کے بعد کراچی کی سڑکیں بری طرح متاثر ہوئی ہیں جب کہ شہر کے نالوں کی صفائی نہ ہونے اور غیر معیاری سڑکوں کے باعث ہفتوں بعد تک بارش کا پانی کھڑا رہتا ہے۔
شہر میں 13 سے زائد لینڈ ایجنسیز ہیں جو اپنے اپنے علاقوں میں کام کرنے کی پابند ہیں لیکن ان کے درمیان باہمی رابطے کا فقدان، یونٹی آف کمانڈ نہ ہونے اور بلدیاتی اداروں میں وسائل اور صلاحیت کی کمی ہے جسے ماہرین، شہر کی ابتر حالت کی ایک اہم وجہ قرار دیتے ہیں۔