پاکستان میں عوام کو درپیش مسائل میں سے ایک سر چھپانے کے لیے چھت کی دستیابی ہے، لیکن پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں نہ صرف ہر خاندان کو رہنے کے لیے مکان میسر ہے بلکہ یہ سہولت آئندہ کئی برسوں کی ضروریات کے لیے کافی ہے۔
آٹھ اکتوبر 2005ء کے تباہ کن زلزلے میں لاکھوں گھر متاثر ہوئے تھے۔ حکومت کی طرف سے چار مرحلوں میں ہر متاثرہ خاندان کو ایک لاکھ 75ہزار روپے ادا کیے گئے ہیں۔
زلزلے سے قبل جوائنٹ فیملی سسٹم کے تحت ایک چھت کے نیچے ایک سے زیادہ خاندان رہتے تھے۔ تاہم زلزلے کے بعد فی چھت کے بجائے فی خاندان کے حساب سے مکانات کی تعمیر کے لیے مالی معاوضہ ادا کیا گیا، جس کے باعث جن علاقوں میں زلزلے سے قبل اکا دکا گھرتھے آج وہاں محلے بن گئے ہیں۔
زلزے کے بعد بحالی وتعمیر نو کے سرکاری ادارے ایرا (ERRA) کے ڈائریکٹر جنرل برائے ہاؤسنگ بریگیڈئر (ریٹائرڈ) ظفر واہلہ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ مالی امداد کی فراہمی کے باعث زلزے میں متاثر ہونے والے مکانوں سے کہیں زیادہ تعداد میں مکان تعمیر ہو چکے ہیں۔
زلزلے سے قبل مٹی اور پتھر سے بنے کچے مکانوں کی جگہ اب جستی چادروں کی چھتوں والے پختہ اور زلزلہ مزاحم گھرتعمیر کیے گئے ہیں، جن کے لیے ایرا نے مالی معاونت کے علاوہ زلزلہ مزاحم ڈیزائن اور رہنمائی بھی مہیا کی اور ساتھ ساتھ مرحلہ وار تعمیر کی نگرانی بھی کی تاکہ مکان بنانے کے لیے دی جانے والی امداد محض مکان کی تعمیر کے لیے ہی استعمال ہو۔
ظفر واہلہ نے بتایا کہ ان علاقوں میں تمام منصوبے آئندہ 30 سے 40 سال کی ضروریات کو پیش نظر رکھ کر بنائے گئے ہیں اور ہاؤسنگ میں بھی مستقبل کی ضروریات کو پیش نظر رکھا گیا۔
اْنھوں نے بتایا کہ زلزلے کے بعد متاثرین نے تباہ شدہ مکانوں کے قابل استعمال ملبے جس میں لکڑی وغیرہ شامل تھی کو دوبارہ استعمال کرکے نئے گھر تیار کیے۔ حال ہی میں ہاؤسنگ پروگرام کی بہترین کارکردگی پرایرا کو اقوام متحدہ کا ساساکاوا (Sasakawa) ایوارڈ بھی دیا گیا ہے۔
پاکستانی کشمیر کی زلزے کے بعد بحالی وتعمیر نو کی ایجنسی سیرا (SERRA) کی ویب سائٹ پر دیے گئے اعداد و شمار کے مطابق زلزے میں 230,494 مکانات تباہ ہوئے تھے جب کہ زلزلے کے فوراً بعد گھروں کی تعمیر کے لیے مالی امداد کی قسط 25 ہزار روپے 314,494 متاثرین کو اداکی گئی، جس کے بعد متاثرہ علاقوں میں غیر سرکاری تنظیموں کی طرف سے بھی لوگوں کو گھروں کی تعمیر نو کے لیے جستی چادریں، دیگر تعمیراتی سامان کے علاوہ نقدی اورتربیت بھی مہیا کی گی۔
سیرا کے شعبہ ہاؤسنگ کے اسلم میر کے مطابق متاثرہ علاقوں میں ایک گھر کی جگہ تین تین گھر تعمیر ہو چکے ہیں جس سے آئندہ کم از کم 20 سال کی ضروریات پوری ہو سکیں گی۔
سیرا کے شعبہ ہاؤسنگ کے حکام نے بتایا کہ اب تک گھر وں کی تعمیر کے لیے 49 ارب 32کروڑ 9 لاکھ بطور مالی امداد تقسیم کیے گئے ہیں، جن سے 96 فیصد متاثرین نے مکانوں کی تعمیر مکمل کر لی ہے۔ اس کے علاوہ سعودی عرب اور سویڈن کی حکومتوں کی طرف سے زلزلے سے متاثرہ شہر مظفرآباد اور باغ میں دو کمروں پر مشتمل چار ہزار تیار شدہ گھر بھی مہیا کیے گئے ہیں جن کی تنصیب سے رہائش کی سہولتوں میں اضافہ ہوا ہے۔
پاکستانی کشمیر میں 80 فیصد سے زائد آبادی دیہی علاقوں میں آباد ہے جہاں زیادہ تر گھر کچے تھے جو 2005ء کے زلزلے میں تباہ ہو گئے۔
ضلع ھٹیاں کے دیہی علاقے شاہدرہ کے رہائشی منظور احمد زلزلے سے پہلے تین بھائیوں کے ہمراہ ایک کچے مکان میں رہائش پذیر تھے۔ زلزے کے بعد انھیں حکومت کی طرف سے دو مکانوں کی تعمیر کے لیے مالی مدد دی گئی اور کچھ غیرسرکاری تنظیموں کی طرف سے بھی انہیں تعمیراتی سامان دیا گیا۔ اب تینوں بھائیوں کے الگ الگ پختہ اور زلزلہ مزاحم مکانات ہیں۔
منظور احمد کہتے ہیں کہ” اگر حکومت اور غیر سرکاری تنظیمیں مدد نہ کرتیں تو شاید ہم تین بھائی آئندہ کئی سالوں تک اپنے الگ الگ مکانات نہ بنا سکتے۔ “
مظفرآباد، باغ، راولاکوٹ، نیلم، پلندری، حویلی اور ھٹیاں بالا کے اضلاع میں زلزلے سے قبل غربت کے سبب ایک مکان میں ایک سے زائد خاندان آباد تھے۔
جب کہ جنوبی اضلاع میرپور، کوٹلی اور گردونواح کے علاقوں سے 10 لاکھ سے زائد لوگ برطانیہ میں مقیم ہیں اور انھوں نے آبائی علاقوں میں دلکش مکانات تعمیر کروا رکھے ہیں جو ان کے بیرون ملک ہونے کی وجہ سے اکثر خالی پڑے رہتے ہیں۔