پاکستان نے کہا ہے کہ مذہبی انتہا پسندی ، دہشت گردی اور دیگر اندرونی مسائل کے باوجود بھارت کے ساتھ تنازع” کشمیر پر وہ اپنے جائز حق“ سے دستبردار نہیں ہوگا اور بھارتی وزیر اعظم کو برصغیر میں کو ئی نیا تنازع کھڑا کرنے سے گریز کرنا چاہیئے۔
بدھ کو نئی دہلی میں مدیران سے گفتگو کرتے ہوئے بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ نے اُمید ظاہر کی تھی کے پاکستان کشمیر سے دستبردار ہو جائے گا کیونکہ وہ اندرونی مسائل میں الجھا ہوا ہے۔
لیکن پاکستان کے وفاقی وزیر برائے اُمور کشمیر میاں منظور احمد وٹو نے وائس آف امریکہ کے ساتھ انٹر ویو میں بھارتی وزیر اعظم کے اس بیان کو مسترد کیا ہے۔ ”مسئلہ کشمیر کے بارے میں میں یہ کہوں گا کہ جو زندہ قومیں ہیں وہ اپنے جائز حق سے دستبردار نہیں ہوتیں۔ حالات تبدیل ہوتے رہتے ہیں،قوموں کے حالات بھی تبدیل ہوتے رہتے ہیں ،چیلنجز آتے رہتے ہیں ۔ دیکھنا یہ ہے کہ ان چیلنجز سے کوئی قوم کس طرح نمٹتی ہے۔“
منظور احمد وٹو نے کہا کہ بلاشبہ دہشت گردی کے خلاف جنگ اس وقت سب سے بڑا چیلنج ہے، پاکستان میں تباہ کن سیلاب کی وجہ سے معیشت کو بہت نقصان پہنچا ہے۔ وفاقی وزیر کے بقول پاکستان کو کمزور سمجھنے کا تاثر غلط ہے کیونکہ حالیہ چند سالوں میں” ملک میں ریاستی اداروں کو مضبوط کرنے ، جموری روایات او ر اقتصادی ترقی کے لیے نمایاں اقدامات کیے گئے ہیں جن سے پاکستان مزید مستحکم ہوگا۔ ‘‘
اُنھوں نے کہا کہ اُن کی حکمران پیپلز پارٹی روز اول سے کشمیر یوں کے حق کے لیے جدوجہد اور اس مسئلے کو بین الاقوامی سطح پر اُٹھانے کی پالیسی پر عمل پیر ا ہے۔” میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہندوستان کو، وزیر اعظم من موہن سنگھ کو جو ایک بڑے منجھے ہوئے سیاست دان ہیں، اُن کو اس بات کو دیکھنا چاہیئے کہ اس وقت برصغیر میں کوئی نیا تنازع نا اُن کے لیے اور نا ہی ہمارے لیے فائدہ مند ہے۔ ہم تو چاہتے ہیں کہ مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر اس مسئلے کا کوئی حل نکا ل لیں جو کشمیریوں، ہندوستان اور پاکستان کے لیے بھی قابل قبول ہو۔“
منظور وٹو نے دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی کوششوں پر بھارتی وزیر اعظم کی تنقید کو بھی مسترد کرتے ہوئے کہا کہ باہر بیٹھ کر باتیں کرنا آسان ہے۔ ”جہاں آگ لگتی ہے اُس کی گرمی تو وہاں محسوس ہوتی ہے۔ پاکستان میں تو دہشت گردی کے خلاف 30 ہزار شہادتیں ہوئیں ہیں اور پانچ ہزار سے زائدفوجی اور نیم فوجی شہید ہوئے ہیں۔تو جتنی قربانی پاکستان نے اس جنگ میں دی ہے وہ بین الاقوامی افواج کی اس لڑائی میں مجموعی قربانیوں سے زیادہ ہے۔“