خیبر پختونخوا کی حکومت نے افغان طالبان کی جانب سے مقامی تاجروں اور ٹرانسپورٹروں سے بھتہ خوری کے الزامات کی تحقیقات شروع کر دی ہیں۔
صوبے کے وزیراعلیٰ نے پولیس کو تحقیقات مکمل کر کے رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا۔
تاہم ابھی تک اس سلسلے میں نہ تو کوئی گرفتاری عمل میں آئی ہے اور نہ کسی خاص گروہ کی نشاندہی کئی گئی ہے۔
پشاور پولیس کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے رابطے پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ وزیر اعلیٰ کی ہدایات کے مطابق مقامی سبزی منڈی اور افغانستان کے ساتھ دوطرفہ تجارت میں معروف ٹرانسپورٹروں اور تاجروں کے ساتھ رابطے قائم کئے جا رہے ہیں۔ اُنہوں نے بھتہ خوری میں ملوث عناصر کو جلداز جلد گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا۔
خیبر پختونخوا حکومت کے ترجمان اجمل وزیر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ وزیراعلیٰ کی ہدایت کے مطابق بھتہ خوری کے بارے میں شکایت کی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔
چند روز قبل پشاور کے ضلعی اسمبلی میں حزب اختلاف کے رہنما سعید ظاہر ایڈوکیٹ نے اجلاس کے دوران مقامی سبزی منڈی میں تاجروں اور ٹرانسپورٹروں سے افغان طالبان کے ہاتھوں بھتہ خوری کے واقعات کے بارے میں بتایا تھا کہ ہر گاڑی اور دکان سے پانچ پانچ ہزار روپے وصول کئے جاتے ہیں۔ اُنہوں نے اس رجحان کو حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ناکامی قرار دیا تھا۔
سعید ظاہر ایڈوکیٹ کے اس انکشاف کے بعد وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان نے صوبائی پولیس کو ہدایت کی کہ وہ بھتہ خوری میں ملوث افراد کے خلاف فوری کارروائی کرے۔
ماضی قریب بالخصوص 2013ء میں پاکستان تحریک انصاف کے خیبر پختونخوا میں برسراقتدار آنے کے بعد دہشت گردی کے واقعات میں تو کمی واقع ہوئی تھی مگر اس دوران بھتہ خوری کی واردات میں کافی اضافہ ہوا تھا۔ طالبان عسکریت پسندوں کو ادائیگیاں نہ کرنے والے سینکڑوں تاجروں اور مالدار لوگوں کے گھروں اور دکانوں میں دھماکے کئے گئے تھے جبکہ درجنوں کی تعداد میں تاجر اور صنعتکاروں نے گھر بار چھوڑ کر اسلام آباد اور ملک کے دیگر شہروں اور قصبوں میں سکونت اختیار کی تھی۔