رسائی کے لنکس

سپریم کورٹ سے گردے کی پیوند کاری کی اجازت دینے کی درخواست


فائل فوٹو
فائل فوٹو

صادق حسین کے داماد مختار کریم نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ انہوں نے اس اجازت نامے کے لیے حکومت پنجاب کے متعلقہ ادارے سے رجوع کیا تھا لیکن ان کے بقول انہیں اس سلسلے میں عدالت سے رجوع کرنے کا مشورہ دیا گیا۔

پاکستان میں گردوں کے مرض میں مبتلا ایک شخص کے بیٹے نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تاکہ اپنے والد کے گردے کی پیوند کاری کے لیے اُنھیں قانونی طور پر اجازت مل سکے۔

56 سالہ صادق حسین گردوں کے عارضے میں مبتلا ہیں اور ان دنوں وہ راولپنڈی کے ایک نجی اسپتال میں زیر علاج ہیں۔

ڈاکٹروں نے انہیں اپنا ایک گردے تبدیل کرنے کا مشورہ دیا ہے، لیکن اسپتال انتظامیہ کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ میں گردوں کی پیوندکاری سے متعلق ایک کیس زیر سماعت ہونے کی وجہ سے وہ اس وقت پیوند کاری کا آپریشن نہیں کر سکتے ہیں۔

اسپتال انتظامیہ کی طرف سے کہا کہ ان کی پیوند کاری صرف اُسی صورت کی جائے گی جب صوبہ پنجاب کی حکومت کا مجاز ادارہ ایسا کرنے کا اجازت نامہ دے گا۔

صادق حسین کے داماد مختار کریم نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ انہوں نے اس اجازت نامے کے لیے حکومت پنجاب کے متعلقہ ادارے سے رجوع کیا تھا لیکن ان کے بقول انہیں اس سلسلے میں عدالت سے رجوع کرنے کا مشورہ دیا گیا۔

مختار کریم نے کہا کہ مریض کے بیٹے شہزاد صادق نے دو ماہ قبل لاہور ہائی کورٹ کے ملتان بینچ میں بھی درخواست دائر کی۔ تاہم عدالت نے اس اپیل کی سماعت سے اس بنا پر انکار کیا کہ پاکستان کے عدالت عظمیٰ میں اعضا کی پیوند کاری سے متعلق معاملہ زیر سماعت ہے۔

اب سپریم کورٹ نے پیر کو اس معاملے کی ابتدائی سماعت کے بعد اپنے حکم نامہ میں ملتان ہائی کورٹ بینچ سے کہا کہ اس معاملے کا فیصلہ میرٹ پر کریں۔

مختار کریم نے کہا کہ اگر ان کے سسر کے گردوں کی پیوند کاری نہیں ہوتی تو ان کی صحت بگڑ سکتی ہے۔

"ہمارے لیے پریشانی کی بات ہے، پریشانی اس لیے بھی ہے کہ ان کا پہلے ہی سے ایک گردہ ہے ڈاکٹر کہتے ہیں کہ جتنی دیر ہو گی، ان کی صحت زیادہ بگڑ سکتی ہے اور ان کی موت واقع ہو سکتی ہے۔‘‘

صادق حسین کے بیٹے نے اپنی درخواست میں موقف اختیار کیا کہ ان کے والد گردے کی پیوند کاری کے لیے گردہ عطیہ کرنے والے کا بھی انتظام کر لیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگرچہ گردہ عطیہ کرنے پر رضا مند خاتون حقیقی رشتہ دار تو نہیں ہیں لیکن وہ مریض کے بھائی کی بہو ہے۔

پاکستان میں اس وقت مروجہ قانون کے تحت کوئی بھی شخص اسی صورت میں کسی دوسرے شخص کو اپنے اعضا عطیہ کر سکتا ہے اگر اس کی عمر 18 سے زائد اور وہ مریض کا خونی رشتہ دار ہے۔

ہیومین رائٹس کمیشن آف پاکستان کے شریک چیئرپرسن کامران عارف نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جہاں انسانی جان کا معاملہ ہو تو وہاں قوائد و ضوابط کو سہل بنانے کی ضرورت ہے۔

مریض کے رشتہ داروں کا بھی کہنا ہے کہ اس قانونی مسائل کو سہل بنایا جائے تاکہ اُن کے عزیز کی جان بچائی جا سکے۔

XS
SM
MD
LG