وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک نے کہا ہے کہ علیحدگی پسند عسکری تنظیموں کی حالیہ پرُتشدد کارروائیوں میں بلوچستان میں اب تک 252 افراد ہلاک اور ان حملوں کے خوف سے ایک لاکھ سے زائد آباد کار صوبہ چھوڑ کرجا چکے ہیں۔
منگل کے روز پارلیمان کے ایوان بالا یاسینٹ کے اجلاس میں بلوچستان میں امن وامان کی صورت حال پر حکومت کا موقف بیان کرتے ہوئے اُنھوں نے کہا کہ ہدف بنا کر قتل کیے جانے والے زیادہ تر افراد کا تعلق ملک کے دوسرے صوبو ں اور قومیتوں سے ہے جبکہ مرنے والوں میں سکیورٹی اہل کار بھی شامل ہیں۔
واضح رہے کہ حالیہ دنوں میں حکومت کو بلوچستان میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورت حال پر اپوزیشن جماعتوں اور سماجی حلقوں کی جانب سے کڑی تنقید کا سامنا رہا ہے اور اس کا اظہار سینٹ کے موجود اجلاس میں بھی کیا گیا جس کے جواب میں وزیر داخلہ رحمن ملک نے ایک تفصیلی بیان دیا۔
اُنھوں نے کہا کہ بظاہر کوئی ذریعہ معاش نہ رکھنے والے بلوچ قوم پرست رہنما براہمداغ بگٹی اور حیربیار مری نے اپنے لشکر بنا رکھے ہیں اور وہ یہ ساری کارروائیاں پیسے کے لیے کر رہے ہیں۔ اپنے خطاب میں رحمن ملک نے کہا کہ حبیب جالب اور دوسرے قوم پرست بلوچ رہنماؤں کو اس لیے قتل کیا گیا کیونکہ وہ لوگ پاکستان کی سا لمیت کے حامی تھے۔
اُنھوں نے کہا کہ سب جانتے ہیں کہ قدرتی وسائل سے مالا مال بلوچستان ملک کا مستقبل ہے اس لیے جو لوگ پاکستان کو ترقی کرتا دیکھنا نہیں چاہتے وہی اس صوبے میں بد امنی پھیلا رہے ہیں۔ سکیورٹی فورسز کو صوبے میں امن وامان کی خرابی کی بڑی وجہ قرار دینے کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے رحمن ملک نے کہا کہ وہ عسکریت پسندوں کے حملو ں کے جواب میں کارروائی کرتے ہیں ۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ پاکستان کی موجودہ جمہوری حکومت بلوچ علیحدگی پسند رہنماؤں سے لڑائی کی نہیں دوستی کی خواہشمند ہے لیکن اس سے پہلے انہیں ملک کے پرچم اور ترانے کی عزت کرنا ہو گی۔
رحمن ملک نے کہا کہ حکومت کے پاس اس بات کے ٹھوس ثبوت ہیں کہ بلوچستان میں حالات خراب کرنے میں ”خفیہ ہاتھ“ ملوث ہے لیکن اُنھوں نے اس کی مزید وضاحت نہیں کی۔
واضح رہے کہ ماضی میں خود وفاقی وزیر داخلہ اور وزیر خارجہ بھارت پر بلوچستان میں مداخلت کا الزام لگا چکے ہیں اور دونوں نے بار بار نہ صرف یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ پاکستان کے پاس اس بارے میں شواہدموجود ہیں بلکہ بھارتی حکام کے ساتھ بات چیت میں بھی یہ معاملہ اٹھایا گیا ہے۔
لیکن یہ امر قابل ذکر ہے کہ اس ماہ اسلام آباد میں پاکستان اور بھارت کے وزرائے خارجہ کے مابین ہونے والے مذاکرات کے بعد ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بھارتی وزیر خارجہ ایس ایم کرشنا نے کہا تھا کہ آج تک پاکستانی حکام نے بلوچستان میں مداخلت کے قابل اعتبار تو دور کی بات کوئی معمولی سے شواہد بھی پیش نہیں کیے لیکن اگر پاکستان نے کوئی ثبوت پیش کیے تو اُن کا ملک اس کی ضرور تحقیقات کرے گا۔