پاکستان کے اراکین پارلیمان نے فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کے اُس بیان کا خیر مقدم کیا ہے کہ جس میں اُنھوں نے سوئی سے آئندہ دو ماہ میں فوجیوں کو واپس بیرکوں میں بھیجنے اور اُن کی جگہ فرنٹیئر کور کے دستوں کو علاقے میں امن وامان قائم رکھنے کی ذمہ داریاں سونپنے کا اعلان کیا ہے۔
حکمران پیپلز پارٹی کے مرکزی ترجمان قمر زمان کائرہ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے فوج کے سربراہ کے بیان کوایک مثبت اقدام قرار دیا۔ ” بلوچستان کے ہمارے بھائیوں کا بہت عرصے سے یہ مطالبہ تھا کہ فوج کی موجودگی ختم کی جائے ۔ صرف سوئی میں فوج موجودہے اور وہاں پر کنٹونمنٹ ختم کر کے کیڈٹ کالج بنانے کا فیصلہ بھی ایک بہت اچھا عمل ہے جس سے بلوچستان کے اُن دورافتادہ علاقوں میں نوجوان مستفید ہو سکیں گے اور اس سے یقینا بہتر اثرات آئیں گے “۔
اپوزیشن مسلم لیگ ق کے سینیٹر طارق عظیم نے بھی حکمر ان پیپلز پارٹی کے موقف کی تائید کرتے ہوئے کہا ہے کہ فوج کے انخلاکے عمل کے بلوچستان کے حالات پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ ”بلوچ عوام کا طویل عرصے سے یہ مطالبہ رہا ہے کہ اُن کے علاقوں سے فوج کو ہٹا دیا جائے اگر آرمی چیف کے اس فیصلے سے وہ(بلوچ عوام) خوش ہوتے ہیں اور اس سے امن بحا ل ہوتا ہے توہماری پارٹی کے لیے اس سے اچھی کوئی بات نہیں“۔
تاہم بلوچستان سے تعلق رکھنے والے اراکین پارلیمان نے آرمی چیف کے بیان پر تحفظات کا اظہار کیا ہے ۔ اُن کا کہنا ہے کہ صوبے کے باشندوں کواصل شکایت فرنٹیئر کور اور خفیہ ایجنسیوں کے اہلکاروں سے ہے اوراگر اس شکایت کو دور نہ کیا گیا تو فوج کے انخلا کے اعلان کی کوئی اہمیت نہیں رہے گی۔
مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے رکن قومی اسمبلی اور صوبے کے سابق گورنر عبدالقادر بلوچ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا۔ ”بنیاد ی مسئلہ فرنٹئیرکور اور انٹیلی جنس ایجنسیوں سے متعلق ہے ۔ تعلیمی اداروں کا قیام فوج کا ایک اچھا اقدام ہے لیکن جہاں تک بلوچستان میں فوج کے آپریشن کی بات ہے میں اس سے متفق نہیں کیوں کہ اس قسم کی کوئی کارروائی نہیں ہو رہی تھی “۔
بلوچستان سے ہی تعلق رکھنے والے جمعیت علما اسلام کے اسماعیل بلیدی نے جنرل کیانی کے اعلان پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں فرنٹئیر کور غیر اعلانیہ طورپر موجود ہے اور اُن کے بقول جب تک ایف سی کی سرگرمیوں کو صوبائی حکومت کے تابع نہیں کیا جاتا تب تک محض فوجوں کے انخلاء سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا کیوں کہ سارے مسائل کی جڑایف سی کے اہلکار ہیں۔
تاہم اراکین پارلیمان کی اکثر یت کا ماننا ہے کہ بلوچستان کے حالات کی بہتری کے لیے فیصلے خواہ سیاسی قیادت کرے یا پھر فوج ، ان پر عملدرآمد کو یقینی بنائے بغیر مثبت نتائج کا حصول ممکن نہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے اعلان کردہ آغاز حقوق بلوچستان پیکج پرتاحال موثرا نداز میں عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے اس سیاسی اقدام کے مطلوبہ نتائج بھی حاصل نہیں ہوسکے ہیں ۔