اسلام آباد —
پاکستان کے شمال اور جنوب مغربی صوبوں میں جمعہ کو ہونے والے دو مختلف دہشت گردانہ حملوں میں مرنے والوں کی تعداد 21 ہوگئی ہے جب کہ اب بھی درجنوں زخمی اسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔
جمعہ کو پشاور کے مضافات میں ایک خودکش حملہ آور نے پولیس اہلکاروں کی ایک بکتر بند گاڑی کے قریب خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔ اس واقعے میں سات افراد ہلاک اور بیس سے زائد زخمی ہوگئے۔ ہفتہ کو چار زخمی اپنے زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے اسپتال میں دم توڑ گئے۔
اس واقعے کے کچھ ہی دیر جنوب مغربی صوبہ بلوچستان کے مرکزی شہر کوئٹہ میں ایک بم دھماکے سے 10 افراد ہلاک اور 37 زخمی ہوگئے تھے۔
ان دونوں دھماکوں کی ذمہ داری ایک ایسی شدت پسند تنظیم نے قبول کی جس کا نام رواں ماہ اسلام آباد میں کچہری کمپلیکس پر ہونے والے دہشت گردانہ حملےکے بعد سامنے آیا تھا۔
احرار الہند نامی تنظیم کی طرف سے اسلام آباد کچہری کمپلیکس پر کیےجانے والے بم دھماکوں اور فائرنگ کے واقعے میں ایک جج سمیت کم ازکم 12 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
اس تنظیم کا دعویٰ ہے کہ وہ ایک عرصہ قبل کالعدم تحریک طالبان پاکستان کا حصہ رہ
چکی ہے لیکن بعد میں اس کے شدت پسند طالبان سے علیحدہ ہوگئے تھے۔
طالبان احرار الہند سے کسی بھی طرح کی وابستگی کو مسترد کر چکے ہیں۔
اس تنظیم یا اس میں شامل عناصر کے بارے میں کوئی مصدقہ معلومات بھی منظر عام پر نہیں آسکی ہیں۔ لیکن ملک میں مختلف حلقے اسے شدت پسندوں کے ساتھ حکومت کی مذاکراتی کوششوں کو نقصان پہنچانے کی سازش قرار دے رہے ہیں۔
گزشتہ روز جن دونوں صوبوں میں دہشت گردانہ واقعات رونما ہوئے وہ ایک عرصے سے دہشت گردی و انتہا پسندی کا شکار چلے آرہے ہیں۔ خیبر پختونخواہ پاکستان کے قبائلی علاقوں سے ملحق ہونے کی وجہ سے شدت پسندوں کے نشانے پر رہا ہے جب کہ بلوچستان میں شدت پسندوں کے علاوہ کالعدم عکسری تنظیمیں بھی امن و امان کا مسئلہ پیدا کرتی رہی ہیں۔
حکومت نے ملک میں قیام امن کو اپنی ترجیحات بیان کرتے ہوئے اس کے لیے شدت پسندوں سے مذاکرات کو موقع دینے کا اعلان کر رکھا ہے۔
طالبان سے مذاکراتی عمل شروع کرنے کے اعلان پر بھی مختلف سیاسی و غیر جانبدار حلقے یہ خدشہ ظاہر کرتے رہے ہیں کہ شدت پسند گروہوں کے آپسی اختلافات کے باعث اس عمل کے ثمربار ہونے کے امکانات بہت کم ہیں۔
جمعہ کو پشاور کے مضافات میں ایک خودکش حملہ آور نے پولیس اہلکاروں کی ایک بکتر بند گاڑی کے قریب خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔ اس واقعے میں سات افراد ہلاک اور بیس سے زائد زخمی ہوگئے۔ ہفتہ کو چار زخمی اپنے زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے اسپتال میں دم توڑ گئے۔
اس واقعے کے کچھ ہی دیر جنوب مغربی صوبہ بلوچستان کے مرکزی شہر کوئٹہ میں ایک بم دھماکے سے 10 افراد ہلاک اور 37 زخمی ہوگئے تھے۔
ان دونوں دھماکوں کی ذمہ داری ایک ایسی شدت پسند تنظیم نے قبول کی جس کا نام رواں ماہ اسلام آباد میں کچہری کمپلیکس پر ہونے والے دہشت گردانہ حملےکے بعد سامنے آیا تھا۔
احرار الہند نامی تنظیم کی طرف سے اسلام آباد کچہری کمپلیکس پر کیےجانے والے بم دھماکوں اور فائرنگ کے واقعے میں ایک جج سمیت کم ازکم 12 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
اس تنظیم کا دعویٰ ہے کہ وہ ایک عرصہ قبل کالعدم تحریک طالبان پاکستان کا حصہ رہ
چکی ہے لیکن بعد میں اس کے شدت پسند طالبان سے علیحدہ ہوگئے تھے۔
طالبان احرار الہند سے کسی بھی طرح کی وابستگی کو مسترد کر چکے ہیں۔
اس تنظیم یا اس میں شامل عناصر کے بارے میں کوئی مصدقہ معلومات بھی منظر عام پر نہیں آسکی ہیں۔ لیکن ملک میں مختلف حلقے اسے شدت پسندوں کے ساتھ حکومت کی مذاکراتی کوششوں کو نقصان پہنچانے کی سازش قرار دے رہے ہیں۔
گزشتہ روز جن دونوں صوبوں میں دہشت گردانہ واقعات رونما ہوئے وہ ایک عرصے سے دہشت گردی و انتہا پسندی کا شکار چلے آرہے ہیں۔ خیبر پختونخواہ پاکستان کے قبائلی علاقوں سے ملحق ہونے کی وجہ سے شدت پسندوں کے نشانے پر رہا ہے جب کہ بلوچستان میں شدت پسندوں کے علاوہ کالعدم عکسری تنظیمیں بھی امن و امان کا مسئلہ پیدا کرتی رہی ہیں۔
حکومت نے ملک میں قیام امن کو اپنی ترجیحات بیان کرتے ہوئے اس کے لیے شدت پسندوں سے مذاکرات کو موقع دینے کا اعلان کر رکھا ہے۔
طالبان سے مذاکراتی عمل شروع کرنے کے اعلان پر بھی مختلف سیاسی و غیر جانبدار حلقے یہ خدشہ ظاہر کرتے رہے ہیں کہ شدت پسند گروہوں کے آپسی اختلافات کے باعث اس عمل کے ثمربار ہونے کے امکانات بہت کم ہیں۔