خیبرپختونخواہ کی حکومت نے کالعدم جماعت الدعوۃ اور اس کی ذیلی تنظیم فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کے خلاف کارروائی کا آغاز کر دیا ہے اور ان کے دفاتر سمیت تمام دیگر امور کا انتظام سنبھالنا شروع کر دیا ہے۔
ہفتہ کو ایک پولیس عہدیدار نے وائس آف امریکہ کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ان تنظیموں کے پشاور، ڈیرہ اسماعیل خان، مانسہرہ، ہری پور، ایبٹ آباد اور بعض دیگر شہروں میں دفاتر کو سیل کر دیا گیا ہے۔
تنظیم کے مقامی کارکنان نے اس بارے میں کوئی بھی تبصرہ کرنے سے گریز کیا ہے۔
حکام نے فلاح انسانیت کے زیر تحت چلنے والی ایمبولینسز کو بھی اپنے قبضے میں لے لیا ہے۔
یہ تنظیم قدرتی آفات سے متاثرہ علاقوں میں امدادی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی رہی ہے۔
تاہم ہفتہ کی دوپہر تک پشاور میں جماعت الدعوۃ کی مرکزی مسجد کھلی تھی جہاں نمازیوں کی آمدورفت کا سلسلہ جاری تھا اور وہاں اسی تنظیم کے مسلح محافظ مامور تھے۔
بتایا جاتا ہے کہ اس کارروائی کی ہدایت وفاقی حکومت کی طرف سے کی گئی تھی جس نے ملک میں ایسی تمام تنظیموں اور افراد کے خلاف کارروائی کا آغاز کرنے کا کہا تھا جو اقوام متحدہ کی طرف سے تعزیرات کی زد میں ہیں۔
اس سے گزشتہ ماہ ہی پنجاب میں بھی جماعت الدعوۃ اور فلاح انسانیت کے زیر اتنظام چلنے والے مدارس اور ڈسپنسریوں کا انتظام حکام نے محکمہ اوقاف کے سپرد کر دیا تھا۔
جماعت الدعوۃ کے سربراہ حافظ سعید نے اس حکومتی اقدام کے خلاف عدالت عالیہ سے بھی رجوع کر رکھا ہے اور ان کا موقف ہے کہ جس قانون کے تحت حکومت یہ کارروائیاں کر رہی ہے وہ پاکستان کے آئین کے تحت بنیادی حقوق کے خلاف ہے۔
حالیہ مہینوں پر بین الاقوامی برادری کی طرف سے پاکستان پر اپنے ہاں ان کالعدم تنظیموں اور افراد کے خلاف مناسب کارروائیاں نہ کرنے کی وجہ سے دباؤ میں اضافہ ہوا جن پر اقوام متحدہ کی طرف سے پابندیاں عائد کی جا چکی ہیں۔
گزشتہ ماہ ہی صدر پاکستان نے انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997ء کی ایک شق میں ترمیم کر کے تشکیل دیے گئے آرڈیننس پر دستخط کیے تھے اور ان تنظیموں کے خلاف کارروائیاں شروع ہوئیں۔
حکومت کا کہنا ہے کہ پاکستان کسی بیرونی دباؤ میں نہیں بلکہ اپنی مفاد میں ایسی تنظیموں کے خلاف کارروائیاں کر رہا ہے۔