پشاور —
پاکستان کے شمال مغربی صوبہ خیبر پختونخواہ کے محکمہ صحت کے عہدیداروں نے بتایا ہے کہ پشاور میں عارضی طور پر مقیم ایک قبائلی خاندان کی ایک سالہ بچی میں پولیو وائرس کی تصدیق کے بعد اس سال ملک بھر میں پولیو کیسز کی تعداد 21 ہو گئی ہے۔
متاثرہ افراد میں سے 12 کا تعلق قبائلی علاقوں جبکہ پانچ کا خیبر پختونخواہ کے مختلف اضلاع سے بتایا جاتا ہے۔
قبائلی علاقوں میں رپورٹ ہونے والے 12 کیسز میں سے آٹھ کا تعلق پشاور سے ملحقہ خیبر ایجنسی سے ہے جہاں گزشتہ کئی برسوں سے ہزاروں کی تعداد میں پانچ سال سے کم عمر کے بچے پولیو سے بچاؤ کے قطرے پینے سے محروم رہے ہیں۔
انسداد پولیو کی ٹیموں پر ہونے والے ہلاکت خیز حملوں کو پولیو کیسز میں اضافے کی ایک بڑی وجہ بتایا جاتا ہے۔
جب کہ دہشت گردی، تشدد اور امن و امان کی ابتر صورتحال کے باعث پاکستان میں پولیو کے مکمل خاتمے کی کوششوں کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے۔
اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے خیبر پختونخواہ حکومت کی حکمت عملی کے بارے میں صوبائی وزیرصحت شوکت یوسفزئی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ انسداد پولیو کی ٹیموں کو سکیورٹی فراہم کرنے کے علاوہ ان کے لیے خصوصی مراعات بھی متعارف کروائی جائیں گی۔
’’ہم پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے والوں کی سکیورٹی کا بھی ہم انتظام کررہے ہیں تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات پیش نہ آئیں۔‘‘
وزیر صحت کا کہنا تھا کہ انسداد پولیو مہم کو مزید موثر بنانے کے لیے مذہبی رہنماؤں کی شمولیت اور مختلف دینی مدارس کو بھی اس کا حصہ بنایا جائے گا۔
پاکستان کے مختلف علاقوں میں گزشتہ دسمبر سے انسداد پولیو کی ٹیموں پر گاہے بگاہے ہلاکت خیز حملے ہوتے آرہے ہیں جس میں خواتین رضا کاروں سمیت ایک درجن سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
ایسے واقعات ملک میں اس مہم کے تواتر سے جاری رہنے میں خلل کا باعث بھی بنتے ہیں۔
پاکستان کا شمار دنیا کے ان تین ملکوں میں ہوتا ہے جہاں انسانی جسم کو اپاہج کر دینے والے پولیو وائرس پر تاحال پوری طرح سے قابو نہیں پایا جاسکا ہے۔ دیگر دو ملکوں میں نائجیریا اور افغانستان شامل ہیں۔
متاثرہ افراد میں سے 12 کا تعلق قبائلی علاقوں جبکہ پانچ کا خیبر پختونخواہ کے مختلف اضلاع سے بتایا جاتا ہے۔
قبائلی علاقوں میں رپورٹ ہونے والے 12 کیسز میں سے آٹھ کا تعلق پشاور سے ملحقہ خیبر ایجنسی سے ہے جہاں گزشتہ کئی برسوں سے ہزاروں کی تعداد میں پانچ سال سے کم عمر کے بچے پولیو سے بچاؤ کے قطرے پینے سے محروم رہے ہیں۔
انسداد پولیو کی ٹیموں پر ہونے والے ہلاکت خیز حملوں کو پولیو کیسز میں اضافے کی ایک بڑی وجہ بتایا جاتا ہے۔
جب کہ دہشت گردی، تشدد اور امن و امان کی ابتر صورتحال کے باعث پاکستان میں پولیو کے مکمل خاتمے کی کوششوں کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے۔
اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے خیبر پختونخواہ حکومت کی حکمت عملی کے بارے میں صوبائی وزیرصحت شوکت یوسفزئی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ انسداد پولیو کی ٹیموں کو سکیورٹی فراہم کرنے کے علاوہ ان کے لیے خصوصی مراعات بھی متعارف کروائی جائیں گی۔
’’ہم پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے والوں کی سکیورٹی کا بھی ہم انتظام کررہے ہیں تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات پیش نہ آئیں۔‘‘
وزیر صحت کا کہنا تھا کہ انسداد پولیو مہم کو مزید موثر بنانے کے لیے مذہبی رہنماؤں کی شمولیت اور مختلف دینی مدارس کو بھی اس کا حصہ بنایا جائے گا۔
پاکستان کے مختلف علاقوں میں گزشتہ دسمبر سے انسداد پولیو کی ٹیموں پر گاہے بگاہے ہلاکت خیز حملے ہوتے آرہے ہیں جس میں خواتین رضا کاروں سمیت ایک درجن سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
ایسے واقعات ملک میں اس مہم کے تواتر سے جاری رہنے میں خلل کا باعث بھی بنتے ہیں۔
پاکستان کا شمار دنیا کے ان تین ملکوں میں ہوتا ہے جہاں انسانی جسم کو اپاہج کر دینے والے پولیو وائرس پر تاحال پوری طرح سے قابو نہیں پایا جاسکا ہے۔ دیگر دو ملکوں میں نائجیریا اور افغانستان شامل ہیں۔