وزیر اعظم عمران خان نے گزشتہ دس سال میں گزشتہ حکومتوں کی جانب سے بیرونی قرضہ لینے پر تحقیقاتی کمیشن قائم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ کمیشن یہ تحقیقات کرے گا کہ بیرونی قرضہ کس مد میں حاصل کیا گیا اور کہاں خرچ ہوا۔ تاہم ابھی کمیشن کے ٹرمز آف ریفرنس طے ہونا باقی ہیں۔
کمیشن میں انٹر سروسز انٹیلی جینس (آئی ایس آئی)، ملٹری انٹیلی جینس (ایم آئی )، انٹیلی جینس بیورو (آئی بی )، سیکورٹیز ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی )، آڈیٹر جنرل آف پاکستان اور وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے نمائندوں کو شامل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ وزیر اعظم کے مطابق وہ اس کمیشن کی نگرانی بھی خود کریں گے۔
ڈاکٹر قیصر بنگالی کا کہنا ہے کہ "یہ مذاق ہے، جب حقیقت معلوم ہو گی تو یہ کمیشن منظر سے غائب ہو جائے گا۔"
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا واقعی یہ کمیشن اس بات کا کھوج لگا پائے گا کہ پاکستان کو قرضوں کے بوجھ تلے ڈالنے کا ذمہ دار کون ہے، حاصل کیے گئے قرضے کن مقاصد کے لیے استعمال ہوئے اور کیا کمیشن خرد برد پائی گئی رقوم کو واپس قومی خزانے میں لا پائے گا؟
کمشن میں حقائق کا سامنا کرنے کی تاب نہیں
ان سوالات پر اقتصادی امور کے معروف نام اور محقق ڈاکٹر قیصر بنگالی کمیشن کو محض ایک سیاسی چال قرار دیتے ہیں۔ ان کے خیال میں یہ کمیشن حقائق معلوم کرنے میں ناکام رہے گا۔ کیونکہ "جب حقائق معلوم کیے جائیں گے تو یہ بات آشکار ہو گی کہ اس میں سے حاصل کردہ زیادہ تر پیسہ دفاع کے لیے گیا اور پھر آپ دیکھیں گے کہ یہ کمیشن ریڈار سے غائب ہو جائے گا۔"
قیصر بنگالی کے مطابق اگر حقائق سے واقعی پردہ اٹھانا ہے تو ہمیں 2001 سے تحقیقات کرنا ہوں گی جب سابق صدر جنرل مشرف کرائے کے ٹیکنو کریٹس لائے اور انہوں نے ہماری معاشی پالیسیوں کو غلط طریقے پر استوار کیا جس کے بعد پوری عمارت قرضوں پر کھڑی کر دی گئی اور اس وقت صورت حال یہ ہے کہ ہماری درآمدات اور برآمدات میں فرق 120 فیصد تک بڑھ چکا ہے۔
قیصر بنگالی کے مطابق مجوزہ کمیشن آزاد اور خودمختار بھی قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ وزیر اعظم نے خود اس کی نگرانی کا فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے اس فیصلے کو مذاق قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ محض بدنیتی پر مبنی فیصلہ ہے جس کا مقصد سیاسی پوائنٹ اسکورنگ ہے۔
اس سوال پر کہ یہ قرضے لینے کاذمہ دار کون ہے؟ قیصر بنگالی کا کہنا تھا کہ اس میں قصوروار سیاسی قیادت نہیں بلکہ یہ ریاست نے حاصل کیے جو بہرحال واپس تو کرنے ہی ہیں۔ ریاست چلانے والوں میں سول اور فوجی قیادت کے ساتھ بیوروکریسی بھی شامل ہوتی ہے۔
'واضح نتائج سامنے آنے کا امکان نہیں'
دوسری جانب انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن سے منسلک اور سیاسی معاشیات کی ماہر ڈاکٹر ہما بقائی بھی مقاصد کے حصول میں کمیشن کی کامیابی کے بارے میں زیادہ پر امید نہیں۔
لیکن ان کا کہنا ہے کہ عمران خان ایک غیر روایتی سیاست دان ثابت ہوئے ہیں اور پاکستان میں معاشی کلچر بہرحال اب تبدیل ہو رہا ہے۔ امرا کی کرپشن پر کھل کر بولا جا رہا ہے اور کئی ایسے لوگ گرفتار بھی ہوئے ہیں جو اس سے قبل کبھی نہیں ہو پائے تھے۔
ڈاکٹر ہما بقائی کے مطابق حکومت کے پاس شاید ملکی تاریخ میں پہلی بار امیر طبقے کی جائیدادوں اور ان کی حقیقی دولت سے متعلق ٹھوس معلومات موجود ہیں۔ اور اسی بنا پر کئی سیاست دانوں سمیت متعدد افراد کو منی لانڈرنگ اور بے نامی اکاؤنٹس کے الزامات میں گرفتار بھی کیا گیا ہے کیونکہ ان کے خلاف بہرحال ایسے ٹھوس ثبوت موجود تھے کہ ان کی گرفتاری بنتی تھی۔
ڈاکٹر ہما بقائی کے مطابق ہو سکتا ہے کہ کمیشن کے واضح نتائج سامنے نہ آ سکیں مگر اس سے دستاویزی ثبوت ضرور اکھٹے ہو جائیں گے۔
صرف دس سال کی تحقیقات کیوں؟
اس سوال پر کہ تحقیقات صرف دس سال پیچھے سے کیوں شروع کی جا رہی ہیں اس کا جواب دیتے ہوئے ڈاکٹر ہما بقائی کا کہنا ہے کہ پاکستان کے قرضوں کے حجم میں جنرل مشرف کے دور اقتدار کے بعد بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے۔ لیکن سوال یہ نہیں کہ قرضے کیوں لیے گئے، اصل سوال یہ ہے کہ قرضے لینے کے بعد خرچ کہاں ہوئے اور یہ بات نوٹ کی گئی کہ برسر اقتدار رہنے کے دوران بہت سے لوگوں کی ذاتی دولت میں بے تحاشا اضافہ ہوا جو سارے عمل کو مشکوک ضرور بناتا ہے۔
'کمیشن کی بنیاد محض بیانیہ ہے'
ادھر نوازشریف کے دور اقتدار میں وفاقی وزارت خزانہ میں ایک اہم عہدے پر فائز سابق افسر نے نام نہ بتانے کی شرط پر وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ کمیشن سادگی پر مبنی خیالات پر تشکیل دیا گیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ محض اس بیانیے پر کہ گزشتہ حکومتوں نے 24 ہزار ارب روپے ہڑپ کر لیے، اس پر کمیشن بنانے کے کوئی خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوں گے۔
اس افسر کے مطابق محض گزشتہ دس ماہ میں قومی قرضوں کے حجم میں کوئی 3 ہزار ارب روپے کا اضافہ ہو چکا ہے جس کی بنیادی وجہ روپے کی قدر میں 40 فیصد کمی ہے۔ ہمیں فکر یہ کرنی چاہیے کہ اس وقت ہمارے قرضوں کا حجم مجموعی قومی پیداوار کے تناسب سے خطرناک حد تک پہنچا ہوا ہے۔ اور اس حجم کو کم کرنے کے لیے حکومت کو تجارتی خسارے پر قابو پانا ہو گا جس کے لیے برآمدات بڑھانا ہوں گی۔ برآمدآت بڑھانے کے لیے مقامی مصنوعات کو عالمی معیار پر لانا ہو گا جس کے لیے تحقیقی صلاحیت اور ہنر مند افرادی قوت اور اصلاحات کرنا بے حد ضروری ہے۔
کمیشن کا امکانی دائرۂ کار
وزیرِ اعظم کے دفتر سے منگل کے روز جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا تھا کہ کمشن خورد برد کی جانے والی رقوم کے ذاتی استعمال کی شکایات جس میں اندرونی اور بیرونی دوروں، بیرون ملک علاج اور دیگر امور پر ہونے والے اخراجات کی بھی تحقیقات کرے گا۔ کمیشن کو بین الاقوامی شہرت کے حامل فرانزک آڈیٹرز اور ماہرین کی مدد حاصل ہو گی۔