مظفر آباد —
کشمیر کو منقسم کرنے والی لائن آف کنٹرول پر حالیہ دنوں میں پاکستان اور بھارت کی افواج کے درمیان فائرنگ وگولہ باری کے تبادلے سے پیدا ہونے والی کشیدگی کے باوجود حد بندی لائن کے آر پار لوگوں کی آمد ورفت اور تجارت کا سلسلہ جاری ہے۔
لیکن اس کشیدہ صورتحال میں سرحدی علاقے نکیال سیکٹر سے سینکٹروں افراد اپنا گھر بار چھوڑ کر محفوظ مقامات پر منتقل ہو گئے ہیں جب کہ کنٹرول لائن کے قریبی علاقوں میں تعلیمی ادارے بند ہیں۔
چھ اگست سے جاری تناؤ کے دوران کنٹرول لائن کے دونوں اطراف فائرنگ کے نتیجے میں فوجیوں اور شہریوں کی ہلاکت کے باوجود منقسم کشمیر کے دونوں حصوں کر درمیان ہفتہ وار بس اور ٹرک سروس جاری ہے۔
حالیہ کشیدگی کے باوجود پونچھ سیکٹر میں راولاکوٹ اور پونچھ کے درمیان ہفتہ وار بس سروس بھی جاری ہے لیکن گزشتہ ہفتے کشیدگی میں اضافے کی وجہ سے معطل ہونے والی ٹرک سروس گزشتہ روز بحال ہو گئی۔
اسی اثناء میں مظفرآباد اور سرینگر کے درمیان چکوٹھی کے راستے ہفتہ وار کنٹرول لائن کے آرپار آمدورفت اور تجارت کا سلسلہ بلا تعطل جاری ہے۔
سرحدی قصبے چکوٹھی کے ایک تاجر محمد شبیر نے بتایا کہ کشیدہ صورتحال کی وجہ سے مقامی کاروباری سرگرمیاں متاثر ہو رہی ہیں۔
پاکستانی کشمیر کے جنوبی ضلع کوٹلی کے نکیال سیکٹر کے اسسٹنٹ کمشنر چودھری محمد ایوب نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ فائرنگ اور گولہ باری کے خوف سے سرحدی علاقوں ڈبسی، لنجوٹ، بالاکوٹ، ترکنڈی وغیرہ سے اب تک 125 خاندانوں کے 485 افراد نقل مکانی کرکے نکیال پہنچے ہیں۔
’’ان لوگوں کے لیے خوراک اور رہائش کا انتظام کیا گیا ہے، سول آبادی پر گولہ باری بین الاقوامی قوانین کی بھی خلاف ورزی ہے اور اس کے باعث لوگوں میں بھی شدید خوف و ہراس پایا جاتا ہے۔ اب تک 26 لوگ سرحد پار فائرنگ و گولہ باری سے زخمی ہو چکے ہیں۔‘‘
اس سے قبل سیاحت کے لیے معروف اور ماضی میں گولہ باری سے شدید متاثرہ وادی نیلم کے مرکزی علاقے آٹھمقام میں لوگوں نے کنٹرول لائن پرکشیدگی کے خلاف امن مارچ بھی منعقد کیا۔
پاکستان کے وزیر اعظم سمیت حکومت میں شامل دیگر عہدیدار یہ کہہ چکے ہیں وہ بھارت کے ساتھ تمام تصفیہ طلب معاملات بات چیت کے ذریعے حل کرنا چاہتے ہیں اور مذکرات ہی تعلقات میں بہتری کا واحد راستہ ہیں۔
لیکن اس کشیدہ صورتحال میں سرحدی علاقے نکیال سیکٹر سے سینکٹروں افراد اپنا گھر بار چھوڑ کر محفوظ مقامات پر منتقل ہو گئے ہیں جب کہ کنٹرول لائن کے قریبی علاقوں میں تعلیمی ادارے بند ہیں۔
چھ اگست سے جاری تناؤ کے دوران کنٹرول لائن کے دونوں اطراف فائرنگ کے نتیجے میں فوجیوں اور شہریوں کی ہلاکت کے باوجود منقسم کشمیر کے دونوں حصوں کر درمیان ہفتہ وار بس اور ٹرک سروس جاری ہے۔
حالیہ کشیدگی کے باوجود پونچھ سیکٹر میں راولاکوٹ اور پونچھ کے درمیان ہفتہ وار بس سروس بھی جاری ہے لیکن گزشتہ ہفتے کشیدگی میں اضافے کی وجہ سے معطل ہونے والی ٹرک سروس گزشتہ روز بحال ہو گئی۔
اسی اثناء میں مظفرآباد اور سرینگر کے درمیان چکوٹھی کے راستے ہفتہ وار کنٹرول لائن کے آرپار آمدورفت اور تجارت کا سلسلہ بلا تعطل جاری ہے۔
سرحدی قصبے چکوٹھی کے ایک تاجر محمد شبیر نے بتایا کہ کشیدہ صورتحال کی وجہ سے مقامی کاروباری سرگرمیاں متاثر ہو رہی ہیں۔
پاکستانی کشمیر کے جنوبی ضلع کوٹلی کے نکیال سیکٹر کے اسسٹنٹ کمشنر چودھری محمد ایوب نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ فائرنگ اور گولہ باری کے خوف سے سرحدی علاقوں ڈبسی، لنجوٹ، بالاکوٹ، ترکنڈی وغیرہ سے اب تک 125 خاندانوں کے 485 افراد نقل مکانی کرکے نکیال پہنچے ہیں۔
’’ان لوگوں کے لیے خوراک اور رہائش کا انتظام کیا گیا ہے، سول آبادی پر گولہ باری بین الاقوامی قوانین کی بھی خلاف ورزی ہے اور اس کے باعث لوگوں میں بھی شدید خوف و ہراس پایا جاتا ہے۔ اب تک 26 لوگ سرحد پار فائرنگ و گولہ باری سے زخمی ہو چکے ہیں۔‘‘
اس سے قبل سیاحت کے لیے معروف اور ماضی میں گولہ باری سے شدید متاثرہ وادی نیلم کے مرکزی علاقے آٹھمقام میں لوگوں نے کنٹرول لائن پرکشیدگی کے خلاف امن مارچ بھی منعقد کیا۔
پاکستان کے وزیر اعظم سمیت حکومت میں شامل دیگر عہدیدار یہ کہہ چکے ہیں وہ بھارت کے ساتھ تمام تصفیہ طلب معاملات بات چیت کے ذریعے حل کرنا چاہتے ہیں اور مذکرات ہی تعلقات میں بہتری کا واحد راستہ ہیں۔