اسلام آباد —
پاکستان میں پارلیمان نے تین سال قبل اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی کے قانون کی منظوری دی تھی تاہم اس سلسلے میں اب تک انتخابات کے ذریعے ملک بھر میں بلدیاتی نظام رائج نا ہوسکا جس سے مبصرین اور سیاست دانوں کے بقول طرز حکمرانی کے سنجیدہ مسائل مزید پیچیدہ اور عوام کی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے۔
سپریم کورٹ نے بھی حال ہی میں بلدیاتی انتخابات میں تاخیر پر ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں اپنے وعدوں سے قطع نظر جلد الیکشن کروانے کو تیار نظر نہیں آتیں۔
آزاد حیثیت میں منتخب ہونے والے سینیٹر محسن لغاری نے وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سیاسی جماعتوں کا ضلعی یا یونین کونسل کی سطح پر تنظیمی ڈھانچہ کمزور ہونے کی وجہ سے بھی ان کی جانب سے اس نظام کے قیام سے متعلق لیت و لعل کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔
’’سیاسی جماعتیں ذرا اس بات سے گھبراتی ہیں کہ بااثر افراد کو ٹکٹ نا دی گئی اور پارٹی کے عہدیداروں کو کہیں ایڈجسٹ کیا گیا تو پارٹی کے اندر کوئی بغاوت نا ہوجائے اور بااثر افراد کو پارٹی کے نامزد امیدواروں کو ہرا نہ دیں تو جماعتیں اپنی کمزریوں کو ظاہر نہیں کرنا چاہتیں۔‘‘
محسن لغاری نے پارلیمان کے ایوان بالا میں ایک بل پیش کیا ہے جس میں الیکشن کمیشن کو کسی بلدیاتی حکومت کی مدت کے ختم ہونے کے 45 دن کے اندر انتخابات کرنے کا پابند بنانے کی تجویز دی گئی ہے۔ ملک کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں نے بلدیاتی نظام کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے اپنے منشورمیں جلد انتخابات کے انعقاد کا عزم کرچکی ہیں۔
سینیٹر لغاری نے اس خدشے کا اظہار بھی کیا کہ وفاق اور صوبوں میں حکمران جماعتیں بلدیاتی انتخابات پر اثر انداز ہو سکتی ہیں۔
’’میں نے الیکشن کمیشن کو عام اتخابات سے پہلے خط لکھا تھا کہ بلدیاتی انتخابات کافی عرصے سے تعطل کا شکار ہیں تو عام انتخابات کے ساتھ انہیں بھی کروادیں۔ اگر یہ ایک ساتھ ہوتے تو موجودہ حکمران جماعتوں کو یہ غیر ضروری فائدہ حاصل نا ہوتا۔‘‘
پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر سعید غنی کہتے ہیں کہ بظاہر بلدیاتی انتخابات میں تاخیر کی وجہ صوبوں اور سیاسی جماعتوں میں ان الیکشن کے طریقہ کار پر اختلاف ہے۔ ان کا بھی کہنا تھا کہ کچھ سیاست دان اب بھی اس نظام کے مخالف ہیں۔
’’اگر کوئی شخص لوکل گورنمنٹ کے نظام کو سمجھتا ہے اور محسوس کرتا ہے کہ ناظم یا دیگر عہدیداروں کے پاس زیادہ اختیارات ہیں تو وہ صوبائی یا قومی اسمبلیوں کے انتخابات نا لڑیں۔ بلدیاتی انتخابات میں حصہ لیں۔ اس (تاخیر) سے مسائل حل نہیں بلکہ ان میں اضافہ ہورہا ہے۔‘‘
صوبہ پنجاب کے علاوہ بلوچستان اور سندھ کی اسمبلیاں جماعتی بنیادوں پر انتخابات کروانے کا قانون منظور کر چکی ہیں جبکہ صوبہ خیبرپختوانخواہ حکومت نے ابھی تک اس بارے میں مسودہ بھی اسمبلی میں پیش نہیں کیا۔
2006ء میں موجودہ وزیراعظم نواز شریف اور پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما بے نظیر بھٹو نے لندن میں ایک معاہدے ’’چارٹر آف ڈیموکریسی‘‘ پر دستخط کیا تھا جس میں دونوں لیڈروں نے جماعتی بنیادوں پر بلدیاتی انتخابات کروانے پر آمادگی کا اظہار کیا تھا۔
اس معاہدے کے ایک سال بعد ہی بے نظیر بھٹو راولپنڈی شہر ایک قاتلانہ حملے میں ہلاک ہوگئی تھیں۔
سپریم کورٹ نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے بلدیاتی انتخابات میں تاخیر کی وجوہات طلب کی ہیں جبکہ عدالت عظمیٰ اس بارے میں تشویش کے اظہار کے بعد الیکشن کمیشن نے بھی انتخابات کی تیاری کا جائزہ لینے کے لیے سرکاری حکام کا اجلاس 3 اکتوبر کو بلایا ہے۔
سپریم کورٹ نے بھی حال ہی میں بلدیاتی انتخابات میں تاخیر پر ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں اپنے وعدوں سے قطع نظر جلد الیکشن کروانے کو تیار نظر نہیں آتیں۔
آزاد حیثیت میں منتخب ہونے والے سینیٹر محسن لغاری نے وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سیاسی جماعتوں کا ضلعی یا یونین کونسل کی سطح پر تنظیمی ڈھانچہ کمزور ہونے کی وجہ سے بھی ان کی جانب سے اس نظام کے قیام سے متعلق لیت و لعل کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔
’’سیاسی جماعتیں ذرا اس بات سے گھبراتی ہیں کہ بااثر افراد کو ٹکٹ نا دی گئی اور پارٹی کے عہدیداروں کو کہیں ایڈجسٹ کیا گیا تو پارٹی کے اندر کوئی بغاوت نا ہوجائے اور بااثر افراد کو پارٹی کے نامزد امیدواروں کو ہرا نہ دیں تو جماعتیں اپنی کمزریوں کو ظاہر نہیں کرنا چاہتیں۔‘‘
محسن لغاری نے پارلیمان کے ایوان بالا میں ایک بل پیش کیا ہے جس میں الیکشن کمیشن کو کسی بلدیاتی حکومت کی مدت کے ختم ہونے کے 45 دن کے اندر انتخابات کرنے کا پابند بنانے کی تجویز دی گئی ہے۔ ملک کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں نے بلدیاتی نظام کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے اپنے منشورمیں جلد انتخابات کے انعقاد کا عزم کرچکی ہیں۔
سینیٹر لغاری نے اس خدشے کا اظہار بھی کیا کہ وفاق اور صوبوں میں حکمران جماعتیں بلدیاتی انتخابات پر اثر انداز ہو سکتی ہیں۔
’’میں نے الیکشن کمیشن کو عام اتخابات سے پہلے خط لکھا تھا کہ بلدیاتی انتخابات کافی عرصے سے تعطل کا شکار ہیں تو عام انتخابات کے ساتھ انہیں بھی کروادیں۔ اگر یہ ایک ساتھ ہوتے تو موجودہ حکمران جماعتوں کو یہ غیر ضروری فائدہ حاصل نا ہوتا۔‘‘
پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر سعید غنی کہتے ہیں کہ بظاہر بلدیاتی انتخابات میں تاخیر کی وجہ صوبوں اور سیاسی جماعتوں میں ان الیکشن کے طریقہ کار پر اختلاف ہے۔ ان کا بھی کہنا تھا کہ کچھ سیاست دان اب بھی اس نظام کے مخالف ہیں۔
’’اگر کوئی شخص لوکل گورنمنٹ کے نظام کو سمجھتا ہے اور محسوس کرتا ہے کہ ناظم یا دیگر عہدیداروں کے پاس زیادہ اختیارات ہیں تو وہ صوبائی یا قومی اسمبلیوں کے انتخابات نا لڑیں۔ بلدیاتی انتخابات میں حصہ لیں۔ اس (تاخیر) سے مسائل حل نہیں بلکہ ان میں اضافہ ہورہا ہے۔‘‘
صوبہ پنجاب کے علاوہ بلوچستان اور سندھ کی اسمبلیاں جماعتی بنیادوں پر انتخابات کروانے کا قانون منظور کر چکی ہیں جبکہ صوبہ خیبرپختوانخواہ حکومت نے ابھی تک اس بارے میں مسودہ بھی اسمبلی میں پیش نہیں کیا۔
2006ء میں موجودہ وزیراعظم نواز شریف اور پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما بے نظیر بھٹو نے لندن میں ایک معاہدے ’’چارٹر آف ڈیموکریسی‘‘ پر دستخط کیا تھا جس میں دونوں لیڈروں نے جماعتی بنیادوں پر بلدیاتی انتخابات کروانے پر آمادگی کا اظہار کیا تھا۔
اس معاہدے کے ایک سال بعد ہی بے نظیر بھٹو راولپنڈی شہر ایک قاتلانہ حملے میں ہلاک ہوگئی تھیں۔
سپریم کورٹ نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے بلدیاتی انتخابات میں تاخیر کی وجوہات طلب کی ہیں جبکہ عدالت عظمیٰ اس بارے میں تشویش کے اظہار کے بعد الیکشن کمیشن نے بھی انتخابات کی تیاری کا جائزہ لینے کے لیے سرکاری حکام کا اجلاس 3 اکتوبر کو بلایا ہے۔