اسٹیٹ بینک کے تازہ ترین اعدادوشمار کے مطابق رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری میں 83 فیصد کمی ہوئی ہے۔ اور مجموعی طور پر جولائی سے ستمبر کے دوران پاکستان میں ترقی یافتہ ملکوں کی سرمایہ کاری کا حجم صرف 5 کروڑ ڈالر رہا ہے۔ جبکہ گزشتہ سال اسی عرصے کے دوران 29 کروڑ ڈالر کی غیر ملکی سرمایہ کاری ہوئی تھی۔
ماہر معاشیات ثاقب شیرانی نے وائس اف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ملک میں مہنگائی بڑھی ہے اور سرمایہ کاری میں کمی سے ملازمت کے مواقعوں میں کمی آئی ہے انھوں نے کہا کہ ملک کے ہر شعبے میں انتظامی مسائل کی درستگی اور اداروں میں اصلاحات کی ضرورت ہے۔
’’ معیشت سست روی کا شکار ہے اور دہشت گردی ہے سرکایہ کاری رک گئی ہے۔ اور نجی سرمایہ کاری ساٹھ سالہ تاریخ کی کم ترین سطح پر ہے اس کا بنیادی عنصر انتظامی اور مالیاتی مسائل کا غیر تسلی بخش ہونا ہے‘‘
ثاقب شیرانی کا کہنا ہے کہ پاکستان کے اقتصادی حالات میں بہتری کے لیے ٹیکس وصولیوں کا دائرہ کار وسیع کرنا ناگزیز ہے۔ انھوں نے عالمی بینک کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ٹیکس وصول کرنے والا ادارہ سالانہ ساڑھے سات سو ارب روپے کے اضافی محصولات جمع کر سکتا ہے لیکن قومی خزانہ ہر سال اس رقم سے محروم رہتا ہے۔
’’ تقریبا سالانہ 300 سے 400 ارب روپے اضافی ٹیکس بہتر مینجمنٹ سے اکٹھے کیے جا سکتے ہیں۔ جبکہ سرکاری ادارہ 300 ارب روپے کا نقصان کرتے ہیں ۔ اس طرح 1000 ارب روپے کے وسائل ضائع ہو رہے ہیں جو جی ڈی پی کا 5 فیصد ہیں ‘‘۔
اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ ملک میں ٹیکس کلچر کو فروغ دینے کے لیے مناسب قوانین کا نفاذ بھی قومی معیشت کو مستحکم کرنے کی کوششوں میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ اراکین پارلیمان اپنا کلیدی کردار ادا کریں۔
امریکہ سمیت پاکستان کو امداد دینے والے دیگر ترقی یافتہ ممالک بھی قومی معیشت میں انتظامی خرابیوں خصوصاً ٹیکس وصولی کے نظام کو وسعت دینے پر زور دیتے آئے ہیں۔ کیونکہ پاکستان کی اٹھارہ کروڑ آبادی کا محض 2 فیصد سالانہ ٹیکس ادا کرتا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ ہلری کلنٹن نے اپنے حالیہ دورہ پاکستان میں اس مسئلے کو اجاگر کرتے ہوئے کہا تھا کہ محدود ٹیکس وصولیوں کے باعث پاکستان کے لیے اقتصادی ڈھانچے میں اصلاحات کرنا ناممکن ہے۔
دو ہزار آٹھ میں عالمی مالیاتی فنڈ نے پاکستانی معیشیت کو سنھبالا دینے کے 11 ارب ڈالر کے اصلاحاتی پیکج کا اعلان کیا تھا۔ لیکن اصلاحات پرعملدارآمد نہ ہونے اور جی ڈی پی میں ٹیکسوں کی شرح نہ بڑھنے کے باعث آئی ایم ایف پروگرام مکمل ہوئے بغیر ہی ختم ہو گیا ہے۔
اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کا پروگرام ختم ہونے کے نتیجے میں پاکستان کے لیے عالمی بینک سمیت دیگر بین الاقوامی اداروں سے قرضوں کا حصول اور بھی مشکل ہو جائے گا۔