پاکستان کے ایک اعلی سرکاری عہدیدار نے متعلقہ وزارتوں کی ناقص کارکردگی اور ان کے مابین رابطوں کے فقدان کو ملک میں بجلی کے بحران میں شدت کی وجہ قرار دیا ہے۔
جمعرات کو اسلام آباد میں منعقدہ ایک سیمنار سے خطاب میں منصوبہ بندی کمیشن میں توانائی کے شعبے کے سربراہ شاہد ستار نے کہا ہے کہ پانی و بجلی، پیٹرولیم اور وزارت خزانہ کی غیر موثر کارکردگی اور ان کے مابین رابطوں کے فقدان کے باعث بجلی کا بحران شدید ہو گیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ متعلقہ وزارتوں میں روابط میں کمی کی وجہ سے توانائی کے شعبے میں زیر گردش قرضوں کی رقم 145 ارب روپے تک پہنچ گئی ہے۔
شاہد ستار کے مطابق حکومت کی جانب سے مالیاتی نطام میں مشکلات کے باعث اس شعبے میں ملکی و غیر ملکی سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی ہو رہی ہے۔ جب کہ پاکستان کو توانائی کے بحران سے نکلنے کے لیے مجموعی خام قومی پیداوار کا سالانہ 4 فیصد توانائی کے شعبے پر خرچ کرنا چاہیئے۔
وائس اف امریکہ سے گفتگو میں شاہد ستار نے کہا کہ توانائی کے شعبے کا منتظم ادارہ نیشنل الیکٹراک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) میں بھی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ نیپرا کا کام صرف بجلی کی قیمت کا تعین کرنا ہی نہیں بلکہ توانائی کے شعبے کی کارکردگی بھی بہتر بنانا بھی ہے۔
’’توانائی کے شعبے کا یومیہ خسارہ 1 ارب روپے ہے۔ متعلقہ حکومتی اداروں کا کردار اس وقت تک صحیح نہیں ہو سکتا جب تک ایک غیر جانبدار ریگولیٹر موجود نہ ہو۔ یہ کردار نیپرا کو ادا کرنا چاہیے۔‘‘
شاہد ستار کا کہنا ہے کہ بجلی کی عدم فراہمی ملک کی معاشی شرح نمو پر براہ راست اثرانداز ہوتی ہے۔
’’لوڈ شیڈنگ سے معاشی شرح نمو میں سالانہ 3 سے 4 فیصد کمی ہوئی ہے جس کے نتیجے میں بے روزگاری کی شرح میں 10 فیصد اضافہ ہوا ہے۔‘‘
منصوبہ بندی کمیشن میں توانائی کے شعبے کے سربراہ نے کہا ہے کہ جہاں توانائی کے شعبے کو ناقص مالیاتی نظام کا سامنا ہے وہیں اس میں غیر موثر کارکردگی کے باعث 22 فیصد بجلی ضائع ہو جاتی ہے۔
انھوں نے کہا کہ توانائی کے بحران پر قابو پانے کی ذمہ داری صرف حکومت ہی کی نہیں ہے بلکہ بجلی کے صارفین کو بھی توانائی کا موثر استعمال یقینی بنانا چاہیے۔
ملک میں بجلی کی مجموعی پیداوار کا 43 فیصد گھریلو صارفین استعمال کرتے ہیں اور شاہد ستار نے کہا کہ عوام کو چاہیے کہ گھروں میں کم بجلی سے چلنے والے آلات استعمال کیے جائیں۔