نوبیل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی ہفتہ کو تقریباً ساڑھے پانچ سال بعد اپنے آبائی علاقے مینگورہ پہنچی ہیں۔
لڑکیوں کے حق حصول تعلیم کے لیے آواز بلند کرنے پر اکتوبر 2012ء میں طالبان عسکریت پسندوں نے کم سن ملالہ کو فائرنگ کر کے زخمی کر دیا تھا۔ انھیں علاج کے لیے برطانیہ منتقل کر دیا گیا تھا اور وہ اب بھی وہیں مقیم ہیں۔
ایک روز قبل ہی صوبہ خیبر پختونخواہ کے علاقے وادی سوات اور ملحقہ حصوں کی سکیورٹی انتہائی سخت کر دی گئی تھی اور ہفتہ کی صبح ملالہ اپنے والدین اور دو بھائیوں کے ہمراہ ایک فوجی ہیلی کاپٹر کے ذریعے وادی سوات پہنچیں۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی 'اے ایف پی' سے بات کرتے ہوئے ملالہ یوسفزئی کا کہنا تھا کہ "میں سوات سے بند آنکھوں کے ساتھ گئی تھی اور اب کھلی آنکھوں سے واپس آئی ہوں۔"
ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ اپنا خواب پورا ہونے پر بے انتہا خوش ہیں۔ "ہمارے بہن بھائیوں کی انمول قربانیوں کے باعث سوات میں امن لوٹ آیا ہے۔"
20 سالہ ملالہ یوسفزئی نے مینگورہ میں اپنے گھر میں کچھ وقت گزارا اور دن کا بقیہ حصہ اپنے رشتے داروں اور سہیلیوں سے ملاقات میں مصروف رہیں۔
انھوں نے مینگورہ کے قریب واقع اپنے خوشحال پبلک اسکول کے علاوہ کیڈٹ کالج سوات اور سوات یونیورسٹی کا بھی مختصر دورہ کیا جہاں انھوں نے طلبا اور اساتذہ سے تبادلہ خیال بھی کیا۔
ملالہ جمعرات کو برطانیہ سے پاکستان آئی تھیں جہاں انھوں نے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سے ملاقات سمیت مصروف وقت گزارا۔ انھوں نے اپنے آبائی علاقے جانے کی خواہش بھی ظاہر کی تھی۔