پھلوں کا بادشاہ کہلوانے والا پھل آم تیار ہو چکا ہے اور اندرون ملک اس کی فروخت کے علاوہ دوسرے ممالک کو اس کی برآمد بھی شروع ہو چکی ہے۔
پاکستان سے پھل اور سبزیاں برآمد کرنے والی تنظیم کے عہدیدار وحید احمد کا کہنا ہے کہ ایک ہفتے کے دوران 2200 ٹن سے زائد آم عرب اور خلیجی ممالک کو برآمد کیا گیا ہے جس کی مالیت 11 لاکھ ڈالرز سے زائد بنتی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ رواں برس فی ٹن آم کی قیمت پانچ سو ڈالر ہے جو کہ گزشتہ برس کی نسبت دگنی ہے اور انھیں توقع ہے کہ اس سال نہ صرف آم کی برآمد کا مقرر کردہ ایک لاکھ ٹن کا ہدف بھی حاصل کر لیا جائے گا بلکہ اس سے بھی زیادہ مقدار میں پھل دوسرے ملکوں کو بھجوائے جائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کا آم اپنے ذائقے کی وجہ سے خاصا پسند کیا جاتا ہے لیکن لکڑی کی پیٹیوں میں بند کر کے انھیں بیرون ملک بھجوانے کی وجہ سے جہاں اس کی ظاہری شکل و صورت پر اثر پڑتا تھا وہیں اس کے خراب ہونے کے امکانات بھی بڑھ جاتے تھے اور اسی بنا پر برآمدی کھیپ کے حوالے سے شکایات بھی موصول ہوتی تھیں۔
لیکن حکومت کی طرف سے لکڑی کی پیٹیوں کی بجائے گتے کے ڈبوں میں ان کی برآمد سے اس کاروبار میں کافی مثبت تبدیلی آئی ہے۔
وحید احمد نے بتایا کہ جلد ہی یورپ کے لیے بھی آموں کی برآمد شروع ہوجائے گی۔ ان کے بقول اس سال موسم کی وجہ سے آموں کی مقدار کم ہونے کا خدشہ ہے لیکن اس بارے میں اصل صورتحال آئندہ ماہ کے اواخر تک واضح ہو سکے گی۔
آموں کو پیکنگ سے قبل ان کی گرم پانی سے صفائی کے لیے بھی مزید اقدامات کیے گئے اور اب ایسے پلانٹس کی تعداد 29 ہو گئی جو کہ پچھلے برس صرف تین تھی۔
امریکہ کے ادارہ برائے بین الاقوامی ترقی ’یوایس ایڈ‘ نے پاکستان میں آم کی پیداوار بڑھانے اور عالمی منڈیوں کو اس کی برآمد کے لیے بھی پاکستان کی تکنیکی معاونت کی ہے۔
وحید احمد کا کہنا تھا کہ پھلوں کی مخصوص مکھی "فروٹ فلائی" سے بچاؤ کے لیے بھی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے جس کے لیے امریکی ادارہ برائے بین الاقوامی ترقی کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
امریکی حکومت بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانے، منڈیوں میں نئے مواقع کی تلاش اور بین الاقوامی توثیق کے لیے آم کے پاکستانی کاشتکاروں کو مدد فراہم کر رہی ہے، جس سے عالمی منڈیوں کواس پھل کی برآمد حالیہ برسوں میں پانچ گنا تک بڑھ گئی۔