رسائی کے لنکس

پاکستان کے لیے سماجی شعبے کے اہداف کا حصول مشکل


شہناز وزیرعلی
شہناز وزیرعلی

وزیراعظم کی خصوصی معاون شہناز وزیر علی نے بتایا کہ تعلیم، صحت، ماحولیات، غربت میں کمی، خواتین کے حقوق اور انہیں قانون ساز اداروں میں نمائندگی دینے کے شعبوں میں اب بھی زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔

وزیراعظم کی خصوصی معاون شہناز وزیر علی نے کہا ہے کہ پاکستان سماجی ترقی کے لیے اقوام متحدہ کے مقرر کردہ اہداف یعنی ’ملینیم ڈویلپمنٹ گولز‘2015 تک حاصل نہیں کر پائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ تعلیم، صحت، ماحولیات، غربت میں کمی، خواتین کے حقوق اور انہیں قانون ساز اداروں میں نمائندگی دینے کے شعبوں میں اب بھی زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔

شہناز وزیرعلی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ کمزور قومی معیشت، امن و امان کے مسائل، سیاسی عدم استحکام اور سیلاب جیسی قدرتی آفات کا سامنا کرنے کے باوجود پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت نے متعدد سماجی منصوبے شروع کر رکھے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ 18 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے صوبوں کو بااختیار بنانے کے ساتھ ساتھ تعلیم و صحت جیسی ذمہ داریاں انہیں سونپ دی گئی ہیں، جبکہ 16 سال تک مفت تعلیم کی بھی ضمانت دی گئی ہے۔

’’جہاں تک خواتین کو مساوی حقوق یا بااختیار بنانے کی بات ہے تو اس میں پاکستان نے بہت کام کیا ہے اور یہ پیش رفت کئی ممالک سے بہتر ہے۔ پارلیمان میں خواتین کی نمائندگی سے اسے جانچا جاتا ہے اور پاکستان میں یہ تعداد کئی ملکوں کی پارلیمان سے زیادہ بہتر ہے۔‘‘

وزیر اعظم کی خصوصی معاون کا کہنا تھا کہ غربت کی شرح میں کمی کے لیے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام شروع کیا گیا جس کے ذریعے 40 لاکھ خاندانوں کی سالانہ مدد کی جاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ چار سالوں میں حکومت کے زیادہ تر وسائل اور توانائیاں دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنے پر صرف ہوئیں جس کی وجہ سے سماجی شعبے مناسب توجہ حاصل نہ کر سکے۔

’’پھر2010 اور 2011 میں سیلاب بہت بڑا دھچکا تھے ہمیں 10 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔‘‘

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں خواندگی کی شرح صرف 58 فیصد تھی جبکہ سن 2015 تک یہ شرح 88 فیصد ہونی چاہیئے۔ جبکہ 17 سے 35 فیصد آبادی خط غربت سے نیچے ہے۔
XS
SM
MD
LG