اسلام آباد —
عالمی ادارے صحت ڈبلیو ایچ او نے کہا ہے کہ گزشتہ سال پاکستان میں بچوں میں خسرے کی بیماری میں بتدریج اضافہ ہوا ہے اور صرف جنوبی صوبہ سندھ میں 210 بچے اس بیماری سے ہلاک ہوئے ہیں۔
ادارے کے مطابق اس سے متاثرہ بچوں کی تعداد میں اضافے کی ایک سب سے بڑی وجہ ان کی خوراک میں غذائی قلت ہے۔
ڈبلیو ایچ او کی ترجمان مریم یونس نے منگل کو وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ان کے ادارے کی حالیہ تحقیقات سے معلوم ہوا کہ صوبہ سندھ اور بالخصوص سیلاب زدہ اضلاع میں خسرے سے متاثر ہونے والے بچوں کی سب سے زیادہ تعداد رپورٹ ہوئی ہے جوکہ تقریباً 7800 ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 2012ء میں صوبے میں اس بیماری سے مرنے والے بچوں میں زیادہ تر نو ماہ یا اس سے کم عمر کے تھے جنھیں بچاؤ کی ویکسینیشن نہیں دی جاسکی۔ خسرے سے بچاؤ کی ویکسینیشن نو ماہ سے دس سال کے بچوں کو دی جاتی ہے۔
ترجمان نے بتایا کہ صرف دسمبر میں سندھ سے 1879 کیسز رپورٹ ہوئے جس میں 93 ہلاکتیں تھی جبکہ 2011ء کے اسی مہینے خسرے کے کیسز صرف 74 تھے اور کوئی ہلاکت نہیں ہوئی۔
’’اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ صورتحال کتنی تشویش ناک ہے۔‘‘
مریم یونس نے بتایا کہ خسرے کے شکار بچوں میں مزید پیدا ہونے والی نمونیا اور بخار جیسی طبی پیچیدگیاں بھی اموات میں اضافے کا سبب بنی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت اور ان کے ادارے کی کوشش ہے کہ اس بیماری پر جلد قابو پایا جاسکے۔ انہوں نے بتایا کہ سندھ میں آٹھ اضلاع میں نو ماہ سے دس سال کے بچوں کو خسرے سے بچاؤ اور وٹامن اے کے قطرے پلانے کی دس روزہ مہم پیر سے شروع کردی گئی ہے۔
ڈبلیو ایچ او کی اہلکار کا کہنا تھا کہ بچوں کو بیماریوں اور بالخصوص جان لیوا بیماریوں سے بچانے کے لیے ان کی خوارک کو متوازن اور غذائی سے بھرپور بنانے کی اشد ضرورت ہے۔
’’ہمارے بچوں کو مہیا خوراک میں غذایت کی مقداد درست نہیں، بہت خراب ہے۔۔اور بد قسمتی سے بہت سارے بچے بہت ساری بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں۔‘‘
اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں 35 لاکھ بچے غذائی قلت جبکہ مزید 15 لاکھ بچے شدید غذائی قلت کا شکار ہیں۔
پاکستان کی سالانہ اقتصادی جائزہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ملک میں نوذائیدہ اور پانچ سال سے کم عمر بچوں کی اموات کی شرح دیگر کئی جنوبی ایشیائی ممالک سے کہیں زیادہ ہے۔
ورلڈ ڈیولیپمنٹ رپورٹ 2011 کے مطابق پاکستان میں پیدا ہونے والے ہر ایک ہزار بچوں میں 86 پانچ سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے مر جاتے ہیں جبکہ نوزائیدہ بچوں کی اموات کی یہ شرح 63 ہے۔
ادارے کے مطابق اس سے متاثرہ بچوں کی تعداد میں اضافے کی ایک سب سے بڑی وجہ ان کی خوراک میں غذائی قلت ہے۔
ڈبلیو ایچ او کی ترجمان مریم یونس نے منگل کو وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ان کے ادارے کی حالیہ تحقیقات سے معلوم ہوا کہ صوبہ سندھ اور بالخصوص سیلاب زدہ اضلاع میں خسرے سے متاثر ہونے والے بچوں کی سب سے زیادہ تعداد رپورٹ ہوئی ہے جوکہ تقریباً 7800 ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 2012ء میں صوبے میں اس بیماری سے مرنے والے بچوں میں زیادہ تر نو ماہ یا اس سے کم عمر کے تھے جنھیں بچاؤ کی ویکسینیشن نہیں دی جاسکی۔ خسرے سے بچاؤ کی ویکسینیشن نو ماہ سے دس سال کے بچوں کو دی جاتی ہے۔
ترجمان نے بتایا کہ صرف دسمبر میں سندھ سے 1879 کیسز رپورٹ ہوئے جس میں 93 ہلاکتیں تھی جبکہ 2011ء کے اسی مہینے خسرے کے کیسز صرف 74 تھے اور کوئی ہلاکت نہیں ہوئی۔
’’اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ صورتحال کتنی تشویش ناک ہے۔‘‘
مریم یونس نے بتایا کہ خسرے کے شکار بچوں میں مزید پیدا ہونے والی نمونیا اور بخار جیسی طبی پیچیدگیاں بھی اموات میں اضافے کا سبب بنی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت اور ان کے ادارے کی کوشش ہے کہ اس بیماری پر جلد قابو پایا جاسکے۔ انہوں نے بتایا کہ سندھ میں آٹھ اضلاع میں نو ماہ سے دس سال کے بچوں کو خسرے سے بچاؤ اور وٹامن اے کے قطرے پلانے کی دس روزہ مہم پیر سے شروع کردی گئی ہے۔
ڈبلیو ایچ او کی اہلکار کا کہنا تھا کہ بچوں کو بیماریوں اور بالخصوص جان لیوا بیماریوں سے بچانے کے لیے ان کی خوارک کو متوازن اور غذائی سے بھرپور بنانے کی اشد ضرورت ہے۔
’’ہمارے بچوں کو مہیا خوراک میں غذایت کی مقداد درست نہیں، بہت خراب ہے۔۔اور بد قسمتی سے بہت سارے بچے بہت ساری بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں۔‘‘
اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں 35 لاکھ بچے غذائی قلت جبکہ مزید 15 لاکھ بچے شدید غذائی قلت کا شکار ہیں۔
پاکستان کی سالانہ اقتصادی جائزہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ملک میں نوذائیدہ اور پانچ سال سے کم عمر بچوں کی اموات کی شرح دیگر کئی جنوبی ایشیائی ممالک سے کہیں زیادہ ہے۔
ورلڈ ڈیولیپمنٹ رپورٹ 2011 کے مطابق پاکستان میں پیدا ہونے والے ہر ایک ہزار بچوں میں 86 پانچ سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے مر جاتے ہیں جبکہ نوزائیدہ بچوں کی اموات کی یہ شرح 63 ہے۔