رسائی کے لنکس

پاکستان میں میڈیا پھر تنقید کی زد پر


فائل فوٹو
فائل فوٹو

مبصرین کا کہنا تھا کہ دہشت گردوں کا سب سے بڑا مقصد دہشت اور خوف و ہراس پھیلانا ہوتا ہے لہذا میڈیا کو ایسی کوریج میں انتہائی ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔

پاکستان میں ذرائع ابلاغ کی حدود و قیود کے بارے میں اپریل سے شروع ہونے والی بحث ابھی ختم نہیں ہوئی تھی کہ اتوار کو کراچی کے ہوائی اڈے پر دہشت گرد حملے کی کوریج سے الیکٹرانک میڈیا پر ضابطے کی مبینہ خلاف ورزی پر تنقید کا نیا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔

سنجیدہ حلقوں کا کہنا ہے کہ پاکستانی نجی ٹی وی چینلز نے ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی فکر میں وہ سب کچھ کیا جو کہ ان کے لیے وضع کردہ قواعد و ضوابط کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔

یہ شکایت نہ صرف سنیئر صحافیوں کی طرف سے سامنے آئی بلکہ حکومتی عہدیدار اور خود سکیورٹی حکام بھی اس کا گلہ کرتے دکھائی دیے۔

مقامی ٹی وی چینلز پر کراچی میں ہونے والے دہشت گرد حملے کی براہ راست کوریج دکھائی جاتی رہی جس میں سکیورٹی فورسز کی نقل و حرکت، حملے میں ہونے والے نقصانات اور ان پر براہ راست تبصرہ بھی کیا جاتا رہا۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ ایسی کوریج سے جہاں ایک طرف ناظرین ذہنی انتشار میں مبتلا ہوتے ہیں وہیں دہشت گرد بھی اس براہ راست نشریات سے کوئی فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔

ایک موقر انگریزی روزنامے ٹربیون کے ایگزیکٹو ایڈیٹر محمد ضیاء الدین نے اعتراف کیا کہ کراچی میں ہونے والے واقعے کی نشریات جس انداز میں پیش کی گئیں اس پر تنقید بہت حد تک درست ہے۔

" لمحہ بہ لمحہ ان (سکیورٹی فورسز) کی حکمت عملی پر نظر رکھی جارہی ہے اس سے متعلق قیاس آرئیاں کرنا بغیر کسی مصدقہ ذرائع کے یا سرکاری بریفنگ کے بغیر یہ مجھے لگا کہ ہم زیادتی کر رہے ہیں اپنے ساتھ، ناظرین کے ساتھ اور اپنی سکیورٹی فورسز کے ساتھ، اس بات کا احتمال تو رہتا ہے نا کہ اس کوریج کو دیکھ کر دہشت گردوں کے جو ہینڈلر ہیں باہر وہ انھیں معلومات فراہم کرتے رہیں۔"

ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردوں کا سب سے بڑا مقصد دہشت اور خوف و ہراس پھیلانا ہوتا ہے لہذا میڈیا کو ایسی کوریج میں انتہائی ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔

سینیئر اینکر پرسن نسیم زہرہ بھی اس تاثر کو درست قرار دیتی ہیں کہ کوریج میں غیر ذمہ داری کا عنصر خاصی حد تک دیکھا گیا۔

"میں تو یہ سن کر حیران ہوگئی کسی نے اپنے رپورٹر سے کہا کہ آپ ذرا خاموش ہوں تاکہ ہم لوگوں کو دھماکے کی آواز سنا دیں اور بہت سی چیزیں ہوئی۔ ظاہر ہے یہ طریقہ صحیح نہیں۔ جس طریقے کی ہم اب رپورٹنگ کرتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ خصوصی فوٹیج ہو لیکن یہاں اگر آپ اسے آزاد شاعری کی طرح آگے بڑھنے دیں گے اس میں ضابطے وضع نہیں کریں گے تو یہی ہوگا۔"

منگل کی دوپہر کراچی ہی میں ایئر پورٹ سکیورٹی فورس کے ایک کیمپ پر دہشت گردوں نے فائرنگ کی اور جوابی کارروائی کے دوران حملہ آور فرار ہوگئے۔ لیکن اس واقعے کو بھی میڈیا میں جس انداز سے پیش کیا گیا اس پر سکیورٹی حکام میڈیا کو الفاظ کے چناؤ میں احتیاط برتنے کا مشورہ دیے بغیر نہ رہ سکے۔

ایئرپورٹ سکیورٹی فورس کے ڈائریکٹر جنرل اعظم خان نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا۔
"جب اس طرح کی خبر جاتی ہے تو ایک اضطراب پھیلتا ہے، بین الاقوامی سطح پر ایک مسئلہ بن جاتا ہے تو اس طرح کے لفظ براہ مہربانی استعمال نہ کریں جس سے غلط پیغام جائے۔ میں آپ سے درخواست کروں گا آپ ان چیزوں کو ضرور کور کریں لیکن بڑھا چڑھا کر پیش نہ کریں۔"

وزیراعظم نوازشریف نے اپنے معاون خصوصی برائے قومی امور عرفان صدیقی کی سربراہی میں ایک کمیٹی قائم کر رکھی ہے جو کہ ذرائع ابلاغ کے لیے ایک متفقہ ضابطہ اخلاق ترتیب دینے میں مصروف ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں عرفان صدیقی کا کہنا تھا کہ حکومت کسی بھی طرح ذرائع ابلاغ پر قدغن نہیں لگانا چاہتی لیکن اب وقت آگیا ہے کہ قواعد و ضوابط کا از سر نو جائزہ لیا جائے۔

"ہم کوئی قدغن نہیں لگانا چاہتے لیکن وہ آزادی بے مہار پن تک نہ جائے، ہمارے قوانین ہیں روایات ہیں اخلاقیات ہیں ان کا احترام کیا جانا چاہیے، آزادی کا بھرم تب ہی رہے گا جب تک وہ حدود میں ہو۔"

تمام مبصرین اس بات پر متفق تھے کہ ایسے حالات کی رپورٹنگ کے لیے صحافیوں کو خصوصی تربیت دینے اور صحافتی اقدار کی پاسداری کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔
XS
SM
MD
LG