امریکی قیادت کو بھیجے گئے مبینہ میمو کی تحقیقات کرنے والے عدالتی کمیشن کا افتتاحی اجلاس پیر کو اسلام آباد میں ہوا جس میں اسکینڈل میں مبینہ طور پر ملوث سابق پاکستانی سفیر حسین حقانی، امریکی شہری منصور اعجاز کے علاوہ امریکہ کے قومی سلامتی کے سابق مشیر جنرل جیمز جونز کا موقف جاننے کے لیے حکومتِ پاکستان کو ان سے رابطہ کرنے کی ہدایت کی گئی۔
اجلاس کے بعد اٹارنی جنرل مولوی انوار الحق نے صحافیوں سے گفتگو میں کمیشن کی طرف سے امریکی شہریوں کو طلب کرنے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’’منصور اعجاز صاحب کو بلایا گیا ہے۔ جنرل جمیز کو بھی نوٹس جاری کیے گئے ہیں کہ اگر وہ کچھ کہنا چاہتے ہیں تو آ کر کہیں۔‘‘
اٹارنی جنرل نے کہا کہ کمیشن نے اُنھیں ہدایت کی ہے کہ وہ وزارتِ انفارمیشن ٹیکنالوجی، مواصلات سے متعلق قومی ادارے پی ٹی اے، وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے اور خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی سے رابطہ کر کے ایسے ماہرین کی نشاندہی کریں جو الیکٹرانک آلات سے معلومات اور شواہد حاصل کرنے میں مدد کر سکتے ہیں۔
بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائض عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی کمیشن نے حسین حقانی اور امریکی شہری منصور اعجاز کے بلیک بیری موبائل فون اور دیگر متعلقہ مواصلاتی ساز و سامان بشمول کمپیوٹرز کمیشن کے سامنے پیش کرنے کا حکم بھی دیا۔
خارجہ سیکرٹری سلمان بشیر نے تحقیقاتی کمیشن کو بتایا کہ سابق سفیر حسین حقانی کے خلاف وزارت خارجہ نے اپنے طور پر کوئی تحقیقات شروع نہیں کی ہیں لیکن حسین حقانی نے اُنھیں بتایا ہے کہ وہ خود کو بے گناہ ثابت کرنے کے لیے محکمانہ یا کسی دوسری تحقیقات کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہیں۔
کمیشن نے آئندہ پیر تک سماعت ملتوی کرتے ہوئے خارجہ سیکرٹری کو ہدایت کی کہ حسین حقانی کی امریکہ میں بطور پاکستانی سفیر کی گئی ملاقاتوں کے بارے میں دستیاب تفصیلات فراہم کریں۔ جس پر سلمان بشیر نے کہا کہ ’’واشنگٹن میں پاکستانی سفارت خانے سے رابطہ کر کے اس بارے میں معلوم کیا جائے گا اور اگر ایسا کوئی ریکارڈ موجود ہوا تو آئندہ پیشی پر آگاہ کر دوں گا۔‘‘
پیر کو ہونے والے اجلاس میں حسین حقانی نا تو خود اور نا ہی ان کی طرف سے کوئی وکیل پیش ہوا۔
تاہم اٹارنی جنرل مولوی انوار الحق نے کمیشن کو بتایا کہ سیکرٹری داخلہ کے توسط سے سابق سفیر کو کمیشن کی کارروائی کے بارے میں نوٹس بھجوا دیا گیا تھا۔
سپریم کورٹ میں میمو اسکینڈل سے متعلق آئینی درخواستوں کے قابل سماعت ہونے یا نا ہونے کے بارے میں سابق سفیر کی طرف سے اُن کی وکیل عاصمہ جہانگیر نے دلائل پیش کیے تھے، لیکن اُنھوں نے عدالتی کمیشن پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے مزید وکالت سے معذوری ظاہر کی ہے اور اپنے موکل کو کسی دوسرے وکیل کی خدمات حاصل کرنے کا مشورہ دیا ہے۔
جسٹس قاضی فائض عیسیٰ نے تمام فریقین کو نوٹس جاری نا ہونے کی وجہ سے حکومت پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ کمیشن جلد از جلد تحقیقات مکمل کرنا چاہتا ہے۔
سپریم کورٹ نے گزشتہ جمعہ کو اپنا فیصلہ سناتے ہوئے میمو اسکینڈل سے متعلق دائر آئینی درخواستوں کو قابل سماعت قرار دیتے ہوئے عدالتی کمیشن قائم کرنے کا اعلان کیا تھا جسے چار ہفتوں میں تحقیقات مکمل کرنے کا پابند کیا گیا ہے۔
عدالتی حکم نامے کے مطابق کمیشن میمو اسکینڈل سے متعلق ملک اور بیرون ملک تمام ثبوت مروجہ قوانین کے مطابق اکٹھا کرنے کا مجاز ہے اور وہ تمام فریقین کو اپنا موقف پیش کرنے کا مکمل موقع بھی فراہم کرے گا۔