رسائی کے لنکس

پشاور اسکول حملے میں ملوث گروہ کا پتا لگا لیا: پاکستانی فوج


ترجمان میجر جنرل عاصم باجوہ (فائل فوٹو)
ترجمان میجر جنرل عاصم باجوہ (فائل فوٹو)

فوج کے ترجمان کا کہنا تھا کہ اسکول پر حملہ کرنے والے دہشت گرد افغانستان ہی سے روانہ ہوئے تھے اور خیبر ایجنسی کے علاقے جمرود میں چند دن قیام کے بعد دو ٹکڑیوں میں پشاور پہنچے۔

پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل عاصم سلیم باجوہ نے کہا کہ پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر حملے کا منصوبہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ ملا فضل اللہ نے کی۔

فوج کے ترجمان کا کہنا تھا کہ اسکول پر حملہ کرنے والے دہشت گردوں کا گروپ افغانستان ہی سے روانہ ہوا، جس نے پاکستان میں داخلے کے بعد خیبر ایجنسی کے علاقے جمرود میں چند دن قیام کیا اور پھر شدت پسند دو ٹکڑیوں میں پشاور پہنچے۔

اُنھوں نے جمعرات کو ایک نیوز کانفرنس میں کہا کہ پشاور اسکول پر حملے میں 27 دہشت گرد ملوث تھے جن میں سے نو مارے جا چکے ہیں، جب کہ 12 کو گرفتار کیا ہے۔

فوج کے ترجمان نے بتایا کہ گرفتار کیے گئے 12 شدت پسندوں میں سے چھ کو افغانستان میں پکڑا گیا۔

اُن کے بقول 6 دہشت گردوں کی گرفتاری کے لیے کارروائی جاری ہے۔

’’ان میں سے دو لوگ تو وہ ہیں جو افغانستان میں بیٹھے ہیں، ملا فضل اللہ افغانستان میں بیٹھا ہوا ہے عمر امیر افغانستان میں بیٹھا ہوا ہے ان کے متعلق جو بھی معلومات ہیں ان کا آپس میں ہم تبادلہ کرتے ہیں یہ کہیں جا نہیں سکتے ضرور پکڑے جائیں گے مارے جائیں گے، یہی ان کا انجام ہے۔‘‘

میجر جنرل عاصم باجوہ نے کہا کہ افغانستان کی حکومت ان دہشت گردوں کے خلاف تعاون کر رہی ہے۔

نیوز کانفرنس کے دوران پشاور اسکول پر حملے میں ملوث ہونے پر گرفتار کیے گئے دہشت گردوں کے ویڈیو بیانات بھی سنائے گئے جس میں وہ اعتراف جرم کرتے نظر آئے۔

فوج کے ترجمان کا کہنا تھا کہ پاکستان دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے لیے پرعزم ہے اور افغانستان کے ساتھ سرحد کی نگرانی کو موثر بنایا گیا ہے۔

اُنھوں نے اس موقع پر بتایا کہ قبائلی علاقے شمالی وزیرستان کے بیشتر حصے سے دہشت گردوں کا صفایا کیا جا چکا ہے اور اس علاقے سے نقل مکانی کرنے والوں کی واپسی کا آغاز مارچ سے متوقع ہے۔

پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر 16 دسمبر 2014ء کو طالبان دہشت گردوں کے مہلک حملے کے بعد پاکستان نے شدت پسندوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کا آغاز کیا۔

اب تک ملک بھر میں انٹیلی جنس معلومات کی بنیاد پر کی گئی کارروائیوں میں وزارت داخلہ کے بقول 12 ہزار سے زائد مشتبہ افراد کو گرفتار کیا گیا جن میں سے درجنوں دہشت گردی میں ملوث تھے۔

حکومت نے دہشت گردوں کے خلاف مقدمات چلانے کے لیے فوجی عدالتیں بھی قائم کیں جن میں 12 ایسے مقدمات کی سماعت شروع ہو چکی ہے۔ یہ مقدمات وفاقی حکومت نے چھان بین کے بعد فوج کو بھیجے تھے۔

XS
SM
MD
LG