حزب مخالف کی سب سے بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ پاکستان کے بعض سیاسی قائدیین طالبان شدت پسندوں سے متعلق واضح موقف اپنانے میں ’’خوفزدہ‘‘ ہیں اور انھوں نے ملک کی سیاسی قیادت سے مطالبہ کیا کہ وہ شدت پسندوں بشمول تحریک طالبان پاکستان سے لاحق خطرات کے خلاف بیداری کا مظاہرہ کرے۔
برطانوی نشریاتی ادارے ’بی بی سی‘ سے ایک انٹرویو میں بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ ملک کی بہادر آوازیں ایک کے بعد ایک ختم کی جا رہی ہیں ’’ہم ناکام ہو رہے ہیں۔‘‘ لیکن ان کے بقول اگر سب متحد ہو جائیں تو طالبان انھیں ہرا نہیں سکتے۔
طالبان شدت پسندوں سے مذاکرات کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ بات چیت سے قبل شدت پسندوں کو شکست دینا ہو گی۔
پیپلزپارٹی کے نوجوان رہنما کا یہ بیان ایک وقت سامنے آیا ہے جب ملک میں شدت پسندوں سے مذاکرات کی نسبت ان کے خلاف کارروائی کے مطالبات زیادہ شدید ہو چلے ہیں اور پیر کو حکمران جماعت مسلم لیگ کے پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں بھی اکثریت کارروائی کے حق میں نظر آئی۔
وفاقی وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان کا کہنا تھا کہ طالبان ایک طرف مذاکرات کی بات کرتے ہیں اور دوسری جانب معصوم لوگوں کو مار رہے ہیں لہذا انھیں اب طالبان پر اعتماد نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ مذاکرات یا آپریشن کا فیصلہ ملک کی اعلیٰ قیادت کرے گی۔
صوبہ خیبر پختونخواہ میں حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف اور اس کے اتحادیوں میں شامل بعض جماعتوں جب کہ مرکزی حکومت میں شامل جمیعت علمائے اسلام (ف) شدت پسندوں سے مذاکرات پر زور دیتی آئی ہیں۔
ان جماعتوں کا موقف ہے کہ گزشتہ سال ستمبر میں ہونے والی کل جماعتی کانفرنس میں مذاکرات پر اتفاق کیا گیا لہذا اس پر عمل درآمد کیا جائے۔
حکومت بھی یہ کہتی آئی ہے کہ مذاکرات ہی اس کی اولین ترجیح ہوگی اور شدت پسندوں کے خلاف طاقت آخری حربے کے طور پر استعمال کی جائے گی۔
بلاول بھٹو نے اپنے انٹرویو میں ان سیاستدانوں کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا جو شدت ملک میں جاری انسداد دہشت گردی کی لڑائی کو ’’امریکہ کی جنگ‘‘ قرار دیتے ہیں۔
پیپلز پارٹی 2008ء سے 2013ء تک اقتدار میں رہی اور اس دوران شدت پسندوں کے خلاف سوات میں ایک کامیاب فوجی آپریشن کے ذریعے حکومتی عملداری بحال کی جاچکی ہے۔
برطانوی نشریاتی ادارے ’بی بی سی‘ سے ایک انٹرویو میں بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ ملک کی بہادر آوازیں ایک کے بعد ایک ختم کی جا رہی ہیں ’’ہم ناکام ہو رہے ہیں۔‘‘ لیکن ان کے بقول اگر سب متحد ہو جائیں تو طالبان انھیں ہرا نہیں سکتے۔
طالبان شدت پسندوں سے مذاکرات کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ بات چیت سے قبل شدت پسندوں کو شکست دینا ہو گی۔
پیپلزپارٹی کے نوجوان رہنما کا یہ بیان ایک وقت سامنے آیا ہے جب ملک میں شدت پسندوں سے مذاکرات کی نسبت ان کے خلاف کارروائی کے مطالبات زیادہ شدید ہو چلے ہیں اور پیر کو حکمران جماعت مسلم لیگ کے پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں بھی اکثریت کارروائی کے حق میں نظر آئی۔
وفاقی وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان کا کہنا تھا کہ طالبان ایک طرف مذاکرات کی بات کرتے ہیں اور دوسری جانب معصوم لوگوں کو مار رہے ہیں لہذا انھیں اب طالبان پر اعتماد نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ مذاکرات یا آپریشن کا فیصلہ ملک کی اعلیٰ قیادت کرے گی۔
صوبہ خیبر پختونخواہ میں حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف اور اس کے اتحادیوں میں شامل بعض جماعتوں جب کہ مرکزی حکومت میں شامل جمیعت علمائے اسلام (ف) شدت پسندوں سے مذاکرات پر زور دیتی آئی ہیں۔
ان جماعتوں کا موقف ہے کہ گزشتہ سال ستمبر میں ہونے والی کل جماعتی کانفرنس میں مذاکرات پر اتفاق کیا گیا لہذا اس پر عمل درآمد کیا جائے۔
حکومت بھی یہ کہتی آئی ہے کہ مذاکرات ہی اس کی اولین ترجیح ہوگی اور شدت پسندوں کے خلاف طاقت آخری حربے کے طور پر استعمال کی جائے گی۔
بلاول بھٹو نے اپنے انٹرویو میں ان سیاستدانوں کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا جو شدت ملک میں جاری انسداد دہشت گردی کی لڑائی کو ’’امریکہ کی جنگ‘‘ قرار دیتے ہیں۔
پیپلز پارٹی 2008ء سے 2013ء تک اقتدار میں رہی اور اس دوران شدت پسندوں کے خلاف سوات میں ایک کامیاب فوجی آپریشن کے ذریعے حکومتی عملداری بحال کی جاچکی ہے۔