پاکستان پیپلز پارٹی نے ملک میں فوجی عدالتوں کو توسیع دینے کے بل کی مخالفت اور اٹھارویں آئینی ترمیم میں تبدیلی کی کوشش کے خلاف مزاحمت کا فیصلہ کیا ہے۔
کراچی میں پیپلز پارٹی کے اہم اجلاس کے بعد پریس کانفرنس میں گفتگو کرتے ہوئے پارٹی کے راہنما فرحت اللہ بابر نے کہا کہ ان کی جماعت فوجی عدالتوں کو توسیع دینے سے متعلق آئینی ترمیم کی مخالفت کرے گی۔
انہوں نے کا کہا کہ دہشت گردی کے واقعات میں بڑی حد تک کمی آئی ہے، اس صورت حال میں فوجی عدالتوں کی موجودگی کا کوئی جواز نہیں بنتا۔
فرحت اللہ بابر نے بتایا کہ حکومت کی جانب سے اگر فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کا بل پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا تو پیپلز پارٹی اس کی مخالفت کرے گی۔
واضح رہے کہ ملک میں فوجی عدالتوں کے قیام کا فیصلہ 2014 میں پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردوں کے حملے کے بعد کیا گیا تھا جس میں طالب علموں سمیت ڈیڑھ سو کے لگ بھگ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ اس مقصد کے لیے آئین میں 21 ویں ترمیم کی گئی تھی۔ ابتدا میں فوجی عدالتوں کے قیام کی مدت دو سال تھی جس میں 2017 میں مزید دو سال کے لیے توسیع کر دی گئی تھی۔ تاہم یہ توسیع جلد ہی ختم ہو رہی ہے۔
ملک میں فوجی عدالتوں کے قیام کا مقصد دہشت گردی کے مقدمات کا جلد فیصلہ اور دہشت گردی میں ملوث مجرموں کو فوری سزائیں دینا تھا۔
اس دوران ملک میں رائج فوجداری قوانین میں مناسب تبدیلیاں کر کے اسے موثر بنانے کا ٹاسک بھی طے کیا گیا تھا لیکن چار سال گزرنے کے بعد بھی اسے پایہ انجام تک نہیں پہنچایا جا سکا۔
پریس کانفرنس میں سابق وزیراعظم اور پیپلز پارٹی کے راہنما سید یوسف رضا گیلانی نے بتایا کہ پارٹی نے یہ فیصلہ بھی کیا ہے کہ 18 ویں آئینی ترمیم کے تحفظ کے لئے تمام سیاسی جماعتوں کو ساتھ لے کر چلا جائے گا۔
سید یوسف رضا گیلانی کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں ہونے والی اس آئینی ترمیم کے ذریعے صوبوں کو حقوق دلائے گئے تھے۔ اگر یہی حقوق پہلے دئیے جاتے تو مشرقی پاکستان کا سانحہ پیش نہ آتا۔ اس ترمیم کا مقصد صوبوں کو زیادہ سے زیادہ خود مختار بنانا تھا، لیکن یوسف رضا گیلانی کے بقول موجودہ حکومت 18 ویں آئینی ترمیم کو رول بیک کر کے صوبائی خودمختاری ختم کرنا چاہتی ہے۔
پریس کانفرنس کے دوران پیپلزپارٹی کے راہنماؤں نے کسی کا نام لیے بغیر الزام عائد کیا کہ بعض سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے عدالتوں کو بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔ ان کا اشارہ سپریم کورٹ کا وہ حالیہ فیصلہ تھا جس میں سپریم کورٹ نے تین اسپتالوں کا کنٹرول سندھ حکومت سے وفاقی حکومت کو دینے کا حکم دیا تھا۔
دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کے وفاقی وزیر برائے آبی امور فیصل واوڈا نے کہا ہے کہ اٹھارویں آئینی ترمیم کے باعث وفاقی حکومت کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں اور وہ اس طریقے سے عوام کی خدمت نہیں کر سکتی جیسا اس کا حق ہے۔ اس ترمیم کے تحت وفاقی حکومت کے لیے ضروری ہے کہ وہ صوبوں میں کسی بھی کام کے لیے وہاں کی صوبائی حکومت کی رضامندی حاصل کرے۔
اس سے پہلے بھی کئی وفاقی وزیر متعدد بار کھلے عام 18ویں آئینی ترمیم کو رول بیک کرنے کے بیانات دے چکے ہیں، تاہم گزشتہ روز ہی تحریک انصاف کے ایک اور رکن قومی اسمبلی مراد سعید نے اسمبلی فلور پر تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ 18 ویں آئینی ترمیم سے متعلق ان کی جماعت نے ابھی تک کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا ہے۔