پاکستان کی فوج نے کہا ہے کہ آئینی ترمیم کے تحت دہشت گردی کے مقدمات کی سماعت کرنے والی فوجی عدالتوں نے اپنی دو سالہ معیاد مکمل ہونے پر کام بند کر دیا ہے۔
اتوار کو فوج کے شعبہ تعلقات عامہ "آئی ایس پی آر" کی طرف سے جاری بیان میں اس کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا گیا کہ اس دوران 274 مقدمات ان عدالتوں میں بھیجے گئے جن میں سے 161 میں مجرموں کو سزائے موت جب کہ 113 کو مختلف مدت کی قید کی سزائیں سنائی گئیں۔
بیان کے مطابق سزائے موت پانے والوں میں سے 12 مجرمان کی سزا پر عملدرآمد کیا جا چکا ہے۔
16 دسمبر 2014ء کو پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر مہلک دہشت گرد حملے کے بعد آئین میں اکیسویں ترمیم اور آرمی ایکٹ میں ترمیم کر کے فوجی عدالتوں کو یہ اختیار دیا گیا تھا کہ ان میں دہشت گردی کے الزامات کا سامنا کرنے والے غیر فوجی ملزمان کے مقدمات سنے جا سکیں گے۔
یہ عدالتیں چھ جنوری 2015ء کو دو سال کی مدت کے لیے تشکیل دی گئی تھیں۔
فوج نے اپنے بیان میں کہا کہ ان عدالتوں کی تشکیل کے وقت ملک کی عدلیہ پر دباؤ تھا اور ججوں و عدالتوں کو بھی دہشت گردی کا سامنا تھا اور اسی بنا پر خصوصی آئینی انتظامات کے تحت فوجی عدالتوں کو دہشت گردی کے مقدمات کی سماعت کے اختیارات دیے گئے۔
مزید برآں بیان کے مطابق ان عدالتوں میں مقدمات کی سماعت قانون کے مطابق کی گئی اور ان کے فیصلوں سے دہشت گرد کارروائیوں میں کمی کے ضمن میں مثبت اثرات مرتب ہوئے۔
فوجی عدالتوں کے خصوصی اختیارات کی مدت ختم ہونے کے بعد اب دہشت گردی کے مقدمات انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں ہی چلائے جائیں گے۔
تاہم بعض مبصرین کی طرف سے یہ کہا جا رہا ہے کہ جن خطرات کے باعث یہ مقدمات سول عدالتوں کی بجائے فوجی عدالتوں میں چلانے کا فیصلہ کیا گیا تھا ان میں کوئی قابل ذکر بہتری نہیں آئی ہے لہذا ان عدالتوں کو توسیع دی جانی چاہیے تھی۔
فوجی عدالتوں کی تشکیل پر ملک میں انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے یہ کہہ کر تنقید کی جاتی رہی ہے کہ یہاں مقدمات کی سماعت کی شفافیت پر سوالیہ نشان ہے اور یہ ملک میں رائج عدالتی نظام کے متوازی نظام کے مترادف ہیں۔
تاہم حکومت کا موقف رہا ہے کہ ملک کو درپیش مخصوص حالات کے تناظر میں ان عدالتوں کا قیام ضروری ہے جن میں مکمل جانچ پڑتال کے بعد ایک طریقہ کار کے ذریعے مقدمات بھیجیں جائیں گے اور ملزمان کو اپنی صفائی کا پورا موقع دیا جائے گا۔