ایک ہفتے کے دوران چار مختلف سماجی کارکنوں کی اچانک گمشدگی کا معاملہ ابھی حل نہیں ہو پایا تھا کہ منگل کو دیر گئے ایک اور سماجی کارکن کے اسلام آباد سے لاپتا ہونے کی خبر نے پہلے سے برہم انسانی حقوق کی تنظیموں کو مزید تشویش میں مبتلا کر دیا۔
"سول پروگریسیو الائنس پاکستان" نامی غیر سرکاری تنظیم کے سربراہ ثمر عباس کے بارے میں بتایا گیا کہ گزشتہ ہفتے سے ان کا اپنے گھر والوں سے کوئی رابطہ نہیں ہوا اور ان کا موبائل فون بھی مسلسل بند ہے۔
کراچی سے تعلق رکھنے والے 40 سالہ ثمر عباس انفارمیشن ٹیکنالوجی کے کاروبار سے بھی منسلک ہیں اور اسی سلسلے میں وہ اسلام آباد آئے ہوئے تھے۔
ان کے اہل خانہ کو شبہ ہے کہ وہ بھی قبل ازیں اچانک لاپتا ہونے والے چار سماجی کارکنوں کی طرح لاپتا ہو گئے ہیں۔
ثمر عباس خاص طور پر ملک میں اقلیتوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف آواز بلند کرتے آ رہے ہیں۔
انسانی حقوق کمیشن پاکستان کے سابق چیئرمین ڈاکٹر مہدی حسن نے بدھ کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ثمر عباس کی گمشدگی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر حکومت نے ایسے واقعات کے تدارک کے لیے سنجیدہ اقدام نہ کیے تو یہ معاشرہ جنگل بن جائے گا۔
"لوگوں کی حفاظت کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے خواہ ان کے نظریات کچھ بھی ہوں بہرحال زندہ رہنے کا حق تو ہر کسی کا بنیادی حق ہے اور حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ سب کی حفاظت کرے۔ اس طرح تو پھر یہ (معاشرہ) جنگل بن جائے گا جہاں ہر طاقتور اپنے سے کمزور پر یا محروم طبقے جو ہیں ان پر ظلم کرے گا تو پھر مسئلہ بہت ٹیڑھا ہو جائے گا۔"
گزشتہ ہفتے ہی اسلام آباد سمیت ملک کے مختلف شہروں سے چار سماجی کارکنان لاپتا ہو گئے تھے جن میں فاطمہ جناح یونیورسٹی سے وابستہ استاد اور شاعر سلمان حیدر بھی شامل ہیں۔
سلمان حیدر کے بارے میں پولیس کی اب تک کی تحقیقات کے بارے میں شائع ہونے والی خبروں کے مطابق انھیں اسلام آباد ایکسپریس وے پر دو گاڑیوں پر سوار پانچ افراد زبردستی اپنے ساتھ لے گئے تھے۔
ان گمشدگیوں کے خلاف منگل کو اسلام آباد اور لاہور میں سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے احتجاجی مظاہرہ بھی کیا تھا۔
ڈاکٹر مہدی حسن کہتے ہیں کہ تفتیش کرنے والوں کو ایسے عناصر پر بھی نظر رکھنی چاہیے جو عسکریت پسندی کے حامی اور طاقت کے استعمال کی دھمکیاں دیتے ہیں۔
"میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ انٹیلی جنس سروسز کا بھی کام ہے وہ اس انداز سے بھی سوچیں کہ جو دائیں بازو کی قوتیں ہیں اور خاص طور پر جو عسکریت پسندی پر یقین رکھتی ہیں اور اعلانیہ کہتی ہیں کہ وہ طاقت استعمال کر سکتی ہیں یا کرنا چاہتی ہیں ان پر بھی نظر رکھنی چاہیے اور تحقیقات میں ان کو بھی شامل کرنا چاہیے۔"
وفاقی وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان نے ایک روز قبل ہی ایوان بالا کو آگاہ کیا تھا کہ حکومت چاروں گمشدہ سماجی کارکنوں کی بازیابی کے لیے موثر کوششیں کر رہی ہے اور ان کے بقول اس ضمن میں تفتیش کار درست سمت میں پیش رفت کر رہے ہیں۔
تاہم ثمر عباس کے بارے میں تاحال حکومت یا پولیس کی طرف سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔