پاکستان میں سال دو ہزار سترہ کے ابتدائی گیارہ دنوں میں اسلام آباد اور لاہور جیسے بڑے شہروں سے پانچ ایسے افراد ’لاپتا‘ یا ’مسنگ‘ قرار دیئے گئے ہیں، جن کا تعلق کسی مشترکہ شعبے سے نہیں تھا۔
وقاص گورایا، عاصم سعید، سلمان حیدر، احمد رضا نصیر اور ثمر عباس میں سے کوئی آئی ٹی ورکر تھا، کوئی شاعر اور کوئی کاروباری شخص۔
ان کا جرم حتمی طور پر کوئی نہیں بتا سکتا، مگر کہا جا رہا ہے کہ وہ سوشل میڈیا صفحات کے ذریعے دہشت گردی اور فرقہ واریت کے خلاف آواز بلند کر رہے تھے۔
برطانوی اخبار گارڈین میں صحافی جوناتھن بون کی اسلام آباد سے شائع ہونے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سلمان حیدر ایک آن لائن میگزین ’تنقید‘ کے ایڈیٹر تھے، جبکہ وقاص گورایا اور عاصم سعید ’موچی‘ کے نام سے ایک فیس بک پیج چلاتے تھے، جس کی کور فوٹو پر لکھی عبارت کہتی ہے کہ ’میں افواج پاکستان کی اتنی ہی عزت کرتا ہوں، جتنی یہ پاکستان کے آئین اور قانون کی کرتی ہیں‘۔
پاکستان کے بعض میڈیا اداروں کی رپورٹس میں ان ’لاپتا‘ افراد میں سے بعض کے نام توہین مذہب کے الزامات سے بھی جوڑے گئے ہیں۔
6 جنوری کو اسلام آباد سے لاپتا ہونے والے سلمان حیدر کے بڑے بھائی ذیشان حیدر نے، جو خود بھی ایک صحافی ہیں نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’’ساڑھے دس بجے رات سلمان کے اپنے فون سے ان کی اہلیہ کے نمبر پر پیغام آیا کہ گاڑی اس جگہ سے لے جائیں، وہ کسی ضروری کام سے جا رہے ہیں۔ ایک صحافی کے طور پر مجھے ایسی بات فوراً کھٹک جاتی ہے۔ تو میں نے پولیس سے رابطہ کیا، اور پولیس نے اگلے دن دوپہر کو ان کی گمشدگی کا مقدمہ درج کر لیا۔ اس کے بعد سے پولیس تحقیقات کا سلسلہ جاری ہے‘‘۔
ذیشان حیدر کے بقول ’’سلمان کے غائب ہونے کے بعد ایسی اطلاعات آئیں کہ کچھ اور لوگ بھی جن کا تعلق سوشل میڈیا ایکٹیوزم سے ہے، وہ بھی ایک دو دن بعد غائب ہوئے ہیں۔ اور اس کے بعد سوشل میڈیا پر ہی ان کا تعلق جوڑا جا رہا ہے کہ وہ کسی کی تحویل میں ہیں‘‘۔
ذیشان حیدر نے اپنے بھائی کے حوالے سے سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی بعض چیزوں کو بے بنیاد قرار دیا۔ بقول ان کے ’’یہ کہنا کہ سلمان کا تعلق کسی ایسے مواد سے ہے، جو توہین مذہب کے ضمرے میں آتا ہے، بالکل غلط ہے۔ وہ سائیکولوجی کے پروفیسر ہیں۔ ایک پی ایچ ڈی ڈاکٹر ہیں، شاعر بھی ہیں، ایک پلے رائٹ اور ایکٹیوسٹ بھی ہیں۔ کنسرن ہمارا اب بھی یہی ہے کہ ہمیں ان کے بارے میں تاحال سرکاری یا غیر سرکاری ذرائع سے کوئی خبر موصول نہیں ہو رہی کہ وہ کہاں ہیں، یا انہیں کہاں رکھا گیا ہے، یا انہیں کون لے گیا ہے‘‘۔
ذیشان حیدر کے بقول، پانچ دن سے ان کا خاندان اس کوشش میں ہے کہ سلمان کی واپسی کی امید نہ ٹوٹنے پائے۔
’’بطور صحافی میں یہ سمجھتا ہوں کہ خبر دیتے دیتے جب آپ خود خبر بن جاتے ہیں تو اس کا جو کرب ہے وہ ہم محسوس کر رہے ہیں، لیکن کوشش یہی ہے کہ امید قائم رہے اور جلد از جلد یہ معاملہ حل ہو۔ ہمیں وزیر داخلہ کی جانب سے براہ راست نہیں، لیکن بلواسطہ طور پر اور پولیس کی جانب سے یقین دہانیاں کروائی جا رہی ہیں کہ معاملہ جلد حل ہو سکتا ہے۔ ہم یہی آس لگائے ہوئے ہیں۔ دوسرا ہمیں سلمان کی صحت کے حوالے سے تشویش ہے۔ وہ جلد کی الرجی میں مبتلا ہیں۔ ان کے لیے کچھ چیزیں روزانہ دوائیوں کے ساتھ ملنا ضروری ہیں۔ تو حکومت پاکستان سے یہی درخواست ہے کہ اس معاملے کو جلد از جلد حل کیا جائے۔ جو بھی کوششیں ہیں انہیں تیز کیا جائے اور جہاں بھی وہ ہیں، جلد از جلد انہیں بازیاب کروایا جائے۔ تاکہ ان پر جو مشکل کا دور ہے، وہ بھی ختم ہو اور ان کے خاندان کو بھی چین آ سکے‘‘۔
اسلام آباد کی غیر سرکاری تنظیم میڈیا میٹرز فار ڈیمو کریسی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اسد بیگ نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں گزشتہ سال جب سائبر کرائم بل بنایا جا رہا تھا تو مسلم لیگ (ن) کی وزیر مملکت برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی نے بار ہا یہ بات کی تھی کہ یہ بل عوام کے تحفظ کے لیے بنایا جا رہا ہے۔
اسد بیگ کے بقول ’’اگر کوئی ایسا کام ہو رہا تھا یا سلمان حیدر یا باقی لوگ کر رہے تھے، جو اس بل کے مطابق جرم تھا، تو ان پر اس بل کے تحت مقدمات کیوں نہیں چلائے گئے ۔ نئے سائبر قانون کے تحت ایف آئی اے کے پاس تمام طاقتیں موجود ہیں، کہ وہ انہیں گرفتار بھی کر سکتی ہے، ان سے تفتیش بھی کر سکتی ہے۔لیکن اگر یہ لوگ سائبر کرائم بل کے مطابق کوئی ایسا کام نہیں کر رہے تھے، جو جرم نہیں تھا، تو بائی ڈیفالٹ ان کی ہر بات آئین کے مطابق آزادی اظہار کے ضمرے میں آتی ہے۔‘‘
اُن کا کہنا تھا کہ قانون بناتے وقت جو وعدے کیے گئے تھے اُن پر عمل درآمد ضروری ہے۔
’’اس بل کو بناتے ہوئے، جو وعدے ہم سے کیے گئے تھے، ہمیں جو خواب دکھائے گئے تھے کہ آپ کی حفاظت ہو گی اور آپ کی پروٹیکشن ہو گی، اور جو لوگ اپنی بات کرنے کے لیے انٹرنیٹ کا استعمال کرتے ہیں، ان کی حفاظت ہو گی، وہ تو ہمیں ہوتی نظر نہیں آ رہی، بلکہ ایسا لگ رہا ہے کہ اس بل کا استعمال، اب چونکہ الیکشن قریب ہیں، تو شائد ایسے ہی لوگوں پر ہو گا، جو کہ اپوزیشن کے لوگ ہیں، جو مین سٹریم سیاست سے اختلاف کا اظہار کرتے ہیں‘‘۔
اسد بیگ کے مطابق سوشل میڈیا پر سرگرم افراد کی گمشدگیاں سائبر کرائمز سے کہیں زیادہ خطرناک ہیں ’’کیونکہ قانون کے تحت کوئی اقدام کرنا، یا کسی چیز پر بات کرنا الگ بات ہے، لیکن جب ایسے لوگوں پر، ان کی فیملیز پر ذاتی حملے ہونا شروع ہو جائیں، جو اپنی بات کہنے کے لیے انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں، تو یہ ایک بہت الگ بات ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت نہ صرف اپنے ہی قانون پر عمل درآمد کروانے میں ناکام ہو گئی ہے، بلکہ اس بات میں بھی ناکام ہو گئی ہے کہ اپنے شہریوں کو تحفظ فراہم کرے‘‘۔
اس دوران اظہار رائے کے حق کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے ڈیوڈ کے، نے ایک بیان میں پاکستانی حکام سے تمام ’لاپتا‘ افراد کی ترجیحی بنیادوں پر بازیابی اور تحفظ کے اقدامات کا مطالبہ کیا ہے، اور کہا ہے کہ ’’کسی حکومت کو اپنے شہریوں کے خلاف ایسے حملے برداشت نہیں کرنا چاہئے۔ ان افراد کی گمشدگی کی تحقیقات کو فوری ترجیح بنا کر، حکومت پاکستان یہ پیغام دے سکتی ہے کہ وہ اپنے شہریوں کی جان اور حفاظت کی ذمہ داری کو سنجیدگی سے لیتی ہے، خصوصاً ان کیسز میں، جن کا تعلق آزادی اظہار سے ہے‘‘۔
اقوام متحدہ کے نمائندے نے زور دیا ہے کہ’’اظہار رائے اور اختلاف کی گنجائش کو فروغ دینا ہر ملک کا فرض ہے، لیکن ایسا ماحول خود بخود پیدا نہیں ہوا کرتا‘‘۔
حالیہ ’گمشدگیوں‘ نے پاکستان میں سوشل میڈیا کے ذریعے اظہار خیال کرنے والوں کے لیے خوف کی فضا پیدا کر دی ہے، جب کہ روزنامہ ڈان کے آن لائن ایڈیشن میں ایک بلاگ لکھنے والے نے سلمان حیدر کی نظم کا یہ حصہ نقل کیا ہےِ،
ابھی تو دوستوں کے دوست لاپتا ہو رہے ہیں،
پھر میرے دوستوں کی باری ہے،
اور اس کے بعد۔۔۔۔
میں وہ فائل بنوں گا،
جسے میرا باپ عدالت لے کر جائے گا۔
رپورٹ کی آڈیو سننے کے لئے یہاں کلک کیجئے: