پاکستان میں لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے قائم عدالتی کمیشن کے سربراہ جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نے کہا کہ گزشتہ دو سالوں کے دوران کمیشن کی کوششوں سے ملک کے مختلف علاقوں سے 44 افراد کا بازیاب کرایا جا چکا ہے۔
ہفتہ کو کوئٹہ میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب میں انھوں نے کہا کہ عدالتی کمیشن کے ارکان ایک ہفتے سے بلوچستان کے صوبائی دارالحکومت میں لاپتہ افراد کے کوائف کی تصدیق کا کام کر رہے ہیں اور ان کے بقول اب تک مصدقہ اعداد و شمار کے مطابق ملک بھر میں لاپتہ افراد کی تعداد 460 ہے۔
اْنھوں نے کہا کہ محض شکایات کی بنا پر کسی بھی شخص کو گمشدہ یا لاپتہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔
جاوید اقبال نے کہا کہ اگر لواحقین مصدقہ شواہد پیش کریں تو عدالتی کمیشن لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے ہر ممکن اقدامات کرے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں کمیشن کے ساتھ مکمل تعاون کر رہی ہیں لیکن ان کے لیے سب سے بڑا چیلنج لاپتہ افراد کی مصدقہ فہرست کی تیاری ہے۔
جاوید اقبال نے کہا کہ لاپتہ افراد کا مسئلہ بہت اہمیت کا حامل ہے کیوں اب یہ مقامی نہیں بلکہ بین الاقوامی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔ ان کے بقول حکومت بلوچستان نے کمیشن کو945 لاپتہ افراد کی فہرست فراہم کی تھی جس میں سے صرف 45 لوگوں کے کوائف درست ثابت ہوئے اس لیے لواحقین اور متعلقہ حکام کمیشن سے اس ضمن میں تعاون کریں۔
کمیشن کے سربراہ نے کہا کہ بلوچستان سے ہزاروں افراد کے لاپتہ ہونے کی بات صرف سیاسی بیان ہے۔ انھوں نے کہا کہ کمیشن مکمل طور پر با اختیار ہے اور انٹیلی جنس ادروں کو طلب کر کے ان پر واضح کیا گیا ہے کہ ماورائے قانون اور آئین کسی اقدام کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔
حال ہی اقوام متحدہ کے ادارہ برائے انسانی حقوق کی سربراہ ناوی پلے نے دورہ پاکستان کے دوران ایک نیوز کانفرنس سے خطاب میں حکومت سے لاپتہ افراد کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے کہا تھا۔
حکومت پاکستان اس مسئلے کے حل کے لیے مسلسل کوششیں کر رہی ہے اور حال ہی میں وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی سربراہی میں ہونے والے ایک اجلاس میں بلوچستان کے مسائل کے حل کے لیے کیے جانے والے اقدامات کو موثر بنانے کا اعلان کیا گیا تھا۔