فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی ایشیا پیسفک ٹیم 7 اکتوبر سے پاکستان کے 12 روزہ دورے پر اسلام آباد میں ہے جہاں وہ وزارت خزانہ و داخلہ کے عہدیداروں کے ساتھ ملاقاتوں کے علاوہ سٹیٹ بینک آف پاکستان، فنانشل مانیٹرنگ یونٹ سیکورٹی ایکس چینج کمشن آف پاکستان کا بھی دورہ کرے گی۔
ٹیم اس دورے میں یہ جائزہ لے گی کہ آیا پاکستان کی حکومت منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی معاونت کے امکانات کو روکنے کے لیے بین الاقوامی ادارے کی طرف سے تجویز کردہ اقدامات کی روشنی میں قوانین اور ضابطوں میں ترامیم کر رہی ہے یا نہیں؟
اخباری اطلاعات کے مطابق پاکستان کی پچھلی حکومت اور موجودہ حکومت نے ملک کا نام گرے لسٹ میں شامل ہونے کے بعد منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی معاونت کے خلاف قوانین کو سخت بنایا ہے اور نگرانی کا نظام بھی بہتر کیا ہے۔
وائس آف امریکہ کے پروگرام جہاں رنگ میں گفتگو کرتے ہوئے سینیر صحافی اور تحقیقاتی صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیم آئی سی آئی جے کے پاکستان میں نمائندے عامر لطیف نے کہا کہ عام طور پر بین الاقوامی وفود 12 دنوں جیسے لمبے دورے پر نہیں آیا کرتے۔
ان کے بقول موجودہ حکومت نے اپنے پہلے 40 دنوں میں، اس سے قبل نگران حکومت نے دو ماہ میں اور اس سے بھی پہلے مسلم لیگ نواز کی حکومت نے، ملک کا نام گرے لسٹ میں آنے کے بعد کئی ایک اقدامات سنجیدگی سے اٹھائے ہیں۔
عامر لطیف بتاتے ہیں کہ منی لانڈرنگ کو، بالخصوص ڈالروں میں پیسے کی غیر قانونی نقل و حرکت روکنے کے لیے اوپن مارکیٹ کی نگرانی کا نظام سخت کر دیا گیا ہے۔ اب کوئی بھی شخص اگر پانچ سو ڈالر سے اوپر کی خرید و فروخت کرے گا تو اس کو اپنا شناختی کارڈ دکھانا ہو گا۔ اسی طرح ڈالر اکاؤنٹ رکھنے والے کا ٹیکس دہندہ ہونا ضروری ہے۔ ملک سے باہر کاروبار یا نوکری کرنے والا شخص پاکستان میں ڈالر اکاؤنٹ تو کھول سکتا ہے لیکن ملک کے اندر ہوتے ہوئے رقوم جمع نہیں کرا سکتا۔ وہ باہر سے اپنے اکاؤنٹ میں رقوم بھیج سکتا ہے۔
عامرلطیف کہتے ہیں کہ مشتبہ شدت پسند تنظیموں پر بھی پابندی لگائی جا رہی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ٹیرر فنانسنگ کو روکنے کے لیے کئی مشتبہ تنظیمیں پابندیوں کی زد میں ہیں۔ حال ہی میں الرحمن نامی تنظیم کو بین کیا گیا ہے۔
تاہم عامر لطیف اب بھی پر اعتماد نہیں کہ یہ اقدامات پاکستان کو آئندہ درجہ بندی میں گرے لسٹ سے باہر نکالنے میں مددگار ہوں گے۔ پاکستان کو غیر معمولی اقدامات کرنا ہوں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ میرا خیال ہے کہ ففٹی ففٹی چانسز ہیں۔ پاکستان نے اقدامات ضرور کیے ہیں لیکن مغربی دنیا سے جماعت الدعوہ جیسی تنظیموں کے خلاف سخت اقدامات کا مطالبہ کیا جاتا ہے جن کے بارے میں تاثر ہے کہ انہیں عسکری اداروں کی مدد حاصل ہے۔ اگر اس حوالے سے پاکستان کے عہدیدار ایف اے ٹی ایف کی ٹیم کو مطمئن کر سکے تو پھر یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ پاکستان گرے لسٹ سے نکل جائے گا ورنہ تو پاکستان کو جسے ترکی، سعودی عرب اور چین کی حمایت حاصل تھی، وہ بھی اب ڈیڑھ کی حمایت باقی رہ گئی ہے۔ سعودی عرب پیچھے ہٹ چکا جبکہ چین نصف حد تک ساتھ کھڑا ہے۔
اویس توحید اسلام آباد میں مقیم سینیر صحافی اور تجزیہ کار ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ پاکستان گرے لسٹ سے نیچے جانا برداشت نہیں کر سکتا۔
ان کے مطابق حکومت اپنے تئیں ایسے ضابطے بنا رہی ہے جو ایف اے ٹی ایف گروپ نے تجویز کیے ہیں۔ اسے امید بھی ہے کہ اس مشکل سے چھٹکارا مل جائے گا۔ کیونکہ اگر پاکستان کے دورے پر آئی یہ ٹیم مطمئن نہیں ہوتی تو پاکستان بلیک لسٹ میں جانے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ معیشت جو پہلے سے مشکلات سے دوچار ہے، مکمل تباہ ہو جائے گی۔
وہ کہتے ہیں کہ عالمی برادری اور پاکستان کی ریاست کے درمیان بداعتمادی کی وجہ کالعدم تنظیمیں ہیں۔
اویس توحید نے کہا کہ پاکستان کی ریاست اور غیر ملکی اداروں کے درمیان بد اعتمادی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ حوالہ یا ہنڈی کے کاروبار کےخلاف کافی اقدامات نہیں کیے گئے اور یہ وہ ذرائع ہیں جہاں سے مختلف کالعدم تنظیمیں پیسہ وصول کرتی ہیں۔
تجزیہ کار پاکستان کے گرے لسٹ سے نکلنے کے بارے میں کافی حد تک پراعتماد ہیں۔ مگر بہت سی مشکلات کے سبب حتمی رائے دینے سے گریزاں ہیں۔