پاکستان میں کم عمری کی شادی کے خلاف قانون سازی کی کوششیں اولین مرحلے میں ناکامی سے دوچار ہو گئیں جس پر اس اہم سماجی مسئلے پر کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیموں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اس ضمن میں اپنے کردار کو جاری رکھیں گی۔
حکمران جماعت مسلم لیگ ن کی رکن قومی اسمبلی ماروی میمن کی طرف سے کم عمری کی شادی کے خلاف پیش کردہ تجویز میں کہا گیا کہ اس کے مرتکب افراد کے لیے سخت سزا ہونی چاہیے۔
لیکن قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے مذہبی امور نے ملکی قوانین کو اسلام کے مطابق پرکھنے والی اسلامی نظریاتی کونسل کی طرف سے اس تجویز کو غیر اسلامی قرار دیے جانے کے بعد مسترد کر دیا۔
استرداد کے بعد ماروی میمن نے تجویز کو فوراً واپس لے لیا۔
اس ضمن میں چائلڈ میرج رسٹرکشن ایکٹ مجریہ 1929ء کو بھی اسلامی نظریاتی کونسل غیر اسلامی قرار دے چکی ہے۔ اس قانون کے تحت شادی کے لیے لڑکے کی کم سے کم 18 اور لڑکی کی عمر 16 سال ہونی چاہیے۔ خلاف ورزی پر اس قانون میں ایک ماہ قید اور ایک ہزار روپے جرمانے کی سزا ہے۔
اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق دنیا بھر میں بلوغت کی عمر کو پہنچنے والی لڑکیوں کی مجموعی تعداد میں سے نصف چھ ممالک میں ہے جن میں پاکستان بھی شامل ہے۔
پاکستان میں حقوق نسواں کے لیے سرگرم تنظیمیں دیہی اور دورافتادہ علاقوں میں لڑکیوں کی کم عمری میں شادیوں کی شرح کو تشویشناک حد تک بلند قرار دیتی ہیں۔
عورت فاؤنڈیشن سے وابستہ سرگرم کارکن ربیعہ ہادی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کم عمری کی شادی کے خلاف مجوزہ قانون کو مسترد کیے جانے کو اس قدامت پسند سوچ اور رویے کا شاخسانہ قرار دیا جو ایسے ہی دیگر سماجی مسائل کے حل میں رکاوٹ ہیں۔
خواتین اور بچیوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کا کہنا ہے کہ کم عمری کی شادی دوران زچگی اموات کا ایک بڑا سبب ہے اور ایک اندازے کے مطابق زچگی کی دوران ہونے والی پیچیدگیوں کے باعث ہونے والی اموات میں ایک بڑی شرح 20 سال سے کم عمر خواتین کی ہوتی ہے۔