اسلام آباد —
قائم مقام چیف الیکشن کمشنر جسٹس تصدق حسین جیلانی نے منگل کو کہا کہ کمیشن سپریم کورٹ کے منظور کردہ نئے شیڈول کے تحت بلدیاتی انخابات آئندہ سال کے اوائل تک کروانے کے لیے سنجیدہ ہے اور اس سلسلے میں تمام تر ممکنہ وسائل کو بروئے کار لایا جائے گا۔
اسلام آباد میں ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں شریک صوبائی حکومتوں سمیت وفاقی محکموں اور سیکورٹی اداروں کے اعلیٰ عہدیداروں پر انہوں نے زور دیا کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ یہ ہدف حاصل ہو۔
’’مجھے یقین ہے کہ آپ سب کو اس بات کا ادراک ہے اور پر عزم بھی ہیں کہ عدالت سے کیے گئے وعدے کو پورا کرنا ہے۔‘‘
گزشتہ ہفتے عدالت عظمیٰ نے بلدیاتی انتخابات کی تاریخوں میں توسیع کی اجازت دی تھی جس کے مطابق سندھ میں انتخابات 18 جنوری، پنجاب میں 30 جنوری جبکہ خیبرپختونخواہ اور فوجی چھاؤنیوں میں فروری میں منعقد کرانے کا اعلان کیا گیا۔ بلوچستان میں الیکشن 7 دسمبر کو ہی ہوں گے۔
صوبائی حکومتوں اور الیکشن کمیشن کی طرف سے عدالت عظمیٰ کو رواں سال انتخابات کروانے سے متعلق مشکلات سے آگاہ کیا گیا تھا جن میں بلدیاتی نظام کے لیے قانون سازی، حلقہ بندیوں اور بڑے پیمانے پر بیلٹ پیپرز کی چھپوائی شامل تھیں۔ اسی سلسلے میں کمیشن نے انتخابات کی تاریخوں میں توسیع کی عدالت عظمیٰ سے دو مرتبہ درخواست بھی کی جسے مسترد کر دیا گیا تھا۔
عدالت کے اصرار پر کمیشن نے نومبر اور دسمبر میں الیکشن کروانے کا شیڈول جاری کیا۔ قومی اسمبلی میں بھی تمام سیاسی جماعتوں نے متفقہ طور پر ایک قرارداد کے ذریعے بلدیاتی انتخابات کے شیڈول میں تبدیلی کا مطالبہ کیا تھا۔
سپریم کورٹ کے سینیئر جج تصدق حسین جیلانی نے تاہم الیکشن شیڈول سے متعلق پیدا ہونے والی پیچیدگیوں کا ذمہ دار صوبائی حکومتوں کو ٹھہرایا۔
’’تمام صوبائی حکومتوں نے عدالت کو تحریری طور پر آگاہ کیا تھا کہ وہ انتخابات کروانے کے لیے تیار ہیں۔ جب کمیشن نے اس پر غور و خوض کیا تو ہمیں معلوم ہوا کہ یہ تاریخیں غیر حقیقی ہیں۔ ہم نے عدالت کو بتایا تاہم عدالت نے سوچا کہ کیونکہ آئین کی انتہائی خلاف وزری سرزد ہوئی ہے اس لیے ہمیں موافق جواب نا ملا۔‘‘
مزید برآں منگل کو سپریم کورٹ کے ایک بینچ نے سیکرٹری دفاع آصف یاسین ملک کی ایک درخواست مسترد کردی جس میں انھوں نے اپنے خلاف ملک کی فوجی چھاؤنیوں میں بروقت بلدیاتی انتخابات نا کروانے پر توہین عدالت کی کارروائی روکنے کی استدعا کی تھی۔
اسلام آباد میں ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں شریک صوبائی حکومتوں سمیت وفاقی محکموں اور سیکورٹی اداروں کے اعلیٰ عہدیداروں پر انہوں نے زور دیا کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ یہ ہدف حاصل ہو۔
’’مجھے یقین ہے کہ آپ سب کو اس بات کا ادراک ہے اور پر عزم بھی ہیں کہ عدالت سے کیے گئے وعدے کو پورا کرنا ہے۔‘‘
گزشتہ ہفتے عدالت عظمیٰ نے بلدیاتی انتخابات کی تاریخوں میں توسیع کی اجازت دی تھی جس کے مطابق سندھ میں انتخابات 18 جنوری، پنجاب میں 30 جنوری جبکہ خیبرپختونخواہ اور فوجی چھاؤنیوں میں فروری میں منعقد کرانے کا اعلان کیا گیا۔ بلوچستان میں الیکشن 7 دسمبر کو ہی ہوں گے۔
صوبائی حکومتوں اور الیکشن کمیشن کی طرف سے عدالت عظمیٰ کو رواں سال انتخابات کروانے سے متعلق مشکلات سے آگاہ کیا گیا تھا جن میں بلدیاتی نظام کے لیے قانون سازی، حلقہ بندیوں اور بڑے پیمانے پر بیلٹ پیپرز کی چھپوائی شامل تھیں۔ اسی سلسلے میں کمیشن نے انتخابات کی تاریخوں میں توسیع کی عدالت عظمیٰ سے دو مرتبہ درخواست بھی کی جسے مسترد کر دیا گیا تھا۔
عدالت کے اصرار پر کمیشن نے نومبر اور دسمبر میں الیکشن کروانے کا شیڈول جاری کیا۔ قومی اسمبلی میں بھی تمام سیاسی جماعتوں نے متفقہ طور پر ایک قرارداد کے ذریعے بلدیاتی انتخابات کے شیڈول میں تبدیلی کا مطالبہ کیا تھا۔
سپریم کورٹ کے سینیئر جج تصدق حسین جیلانی نے تاہم الیکشن شیڈول سے متعلق پیدا ہونے والی پیچیدگیوں کا ذمہ دار صوبائی حکومتوں کو ٹھہرایا۔
’’تمام صوبائی حکومتوں نے عدالت کو تحریری طور پر آگاہ کیا تھا کہ وہ انتخابات کروانے کے لیے تیار ہیں۔ جب کمیشن نے اس پر غور و خوض کیا تو ہمیں معلوم ہوا کہ یہ تاریخیں غیر حقیقی ہیں۔ ہم نے عدالت کو بتایا تاہم عدالت نے سوچا کہ کیونکہ آئین کی انتہائی خلاف وزری سرزد ہوئی ہے اس لیے ہمیں موافق جواب نا ملا۔‘‘
مزید برآں منگل کو سپریم کورٹ کے ایک بینچ نے سیکرٹری دفاع آصف یاسین ملک کی ایک درخواست مسترد کردی جس میں انھوں نے اپنے خلاف ملک کی فوجی چھاؤنیوں میں بروقت بلدیاتی انتخابات نا کروانے پر توہین عدالت کی کارروائی روکنے کی استدعا کی تھی۔