اسلام آباد —
انسداد دہشت گردی کی عدالت نے منگل کو سابق فوجی صدر پرویز مشرف پر بے نظیر بھٹو کے قتل میں سازش کرنے کے الزامات پر فرد جرم عائد کردی۔
عسکریت پسندوں کی طرف سے ممکنہ حملے کے پیش نظر پرویز مشرف کو سخت سیکورٹی کے حصار میں سماعت کے لیے جج حبیب الرحمٰن کی عدالت میں لایا گیا جہاں بند کمرے میں کارروائی کے دوران استغاثہ اور دفاع کے وکلاء کے مطابق فوج کے سابق سربراہ کو ان کے خلاف الزامات پڑھ کر سنائے گئے۔
سماعت کے بعد وائس آف امریکہ سے گفتگو میں دفاع کی وکیل افشاں عادل کا کہنا تھا کہ پرویز مشرف پر الزام ہے کہ وہ نا صرف سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے قتل کی سازش ملوث تھے بلکہ انہوں نے مناسب سیکورٹی نا دے کر حملہ آوروں کی معاونت بھی کی۔
انہوں نے کہا کہ ان کے موکل نے ان الزامات کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ وہ اپنا مکمل اور بھرپور دفاع کریں گے جس پر ان پر فرد جرم عائد کردی۔ وکیل دفاع نے اس مقدمے کی تحقیقات کو نامکمل اور ناقص قرار دیتے ہوئے کہا۔
’’کہیں وقوع ہوتا ہے تو وہاں موجود لوگوں کا بیان لیا جاتا ہے تو بے نظیر کے ساتھ گاڑی میں موجود افراد کے بیان کیوں نہیں لیے گئے۔ کیا وہ بیان سامنے آئیں ہیں؟ وہ کیوں بیان نہیں لیتے؟ جب تک وہ بیان سامنے نہیں آئیں گے معاملہ کیسے آگے بڑھے گا۔‘‘
دسمبر 2007ء میں سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو راولپنڈی میں ایک انتخابی ریلی سے خطاب کے بعد فائرنگ اور بم دھماکے ہلاک ہو گئی تھیں اور اس وقت کے حکام نے اس کی ذمہ داری القاعدہ سے منسلک کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے کمانڈر بیت اللہ محسود پر عائد کی۔ بیت اللہ بعد میں مبینہ امریکی ڈرون حملے میں جنوبی وزیرستان میں مارا گیا۔
افشاں عادل کے بقول فوج کے سابق سربراہ کو اس مقدمے میں شامل کرنا تحقیقات کا رخ موڑنے اور حقائق پر پردہ ڈالنے کی کوشش ہے۔
’’کیا مشرف طالبان کے ساتھ مل کر سازش کر سکتا تھا جدھر زمین و آسمان کا فرق تھا؟ وہ شخص انہیں مار رہا تھا اور وہ مشرف کو مارنا چاہتے تھے۔ سازش تو وہاں ہوتی ہے جہاں لوگ ہم نوالا اور ہم پیالہ ہوں۔‘‘
استغاثہ کے وکیل محمد اظہر چوہدری کہنا ہے کہ ان کے پاس ٹھوس ثبوت ہیں کہ اس وقت کے سیکورٹی سے متعلق اعلیٰ اقسران کی درخواست کے باوجود پرویز مشرف نے بے نظیر بھٹو کی سیکورٹی بڑھانے کے احکامات جاری نا کیے۔ تاہم وہ مقدمے کے جلد فیصلے کی توقع نہیں کرتے۔
پرویز مشرف کے علاوہ اس مقدمے میں سات اور افراد بھی شامل ہیں جن میں دو اعلیٰ پولیس افسران اور حملہ آور کے پانچ مبینہ ساتھی ہیں۔ بے نظیر قتل کیس کی آئنندہ سماعت 27 اگست کو ہو گی جس میں استغاثہ کے وکیل کے بقول شواہد قلم بند کیے جائیں گے۔
فوج کے سابق سربراہ ججوں کی نظر بندی اور بلوچ قوم پرست رہنما نواب اکبر بگٹی قتل کیس کا بھی سامنا ہے۔
عسکریت پسندوں کی طرف سے ممکنہ حملے کے پیش نظر پرویز مشرف کو سخت سیکورٹی کے حصار میں سماعت کے لیے جج حبیب الرحمٰن کی عدالت میں لایا گیا جہاں بند کمرے میں کارروائی کے دوران استغاثہ اور دفاع کے وکلاء کے مطابق فوج کے سابق سربراہ کو ان کے خلاف الزامات پڑھ کر سنائے گئے۔
سماعت کے بعد وائس آف امریکہ سے گفتگو میں دفاع کی وکیل افشاں عادل کا کہنا تھا کہ پرویز مشرف پر الزام ہے کہ وہ نا صرف سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے قتل کی سازش ملوث تھے بلکہ انہوں نے مناسب سیکورٹی نا دے کر حملہ آوروں کی معاونت بھی کی۔
انہوں نے کہا کہ ان کے موکل نے ان الزامات کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ وہ اپنا مکمل اور بھرپور دفاع کریں گے جس پر ان پر فرد جرم عائد کردی۔ وکیل دفاع نے اس مقدمے کی تحقیقات کو نامکمل اور ناقص قرار دیتے ہوئے کہا۔
’’کہیں وقوع ہوتا ہے تو وہاں موجود لوگوں کا بیان لیا جاتا ہے تو بے نظیر کے ساتھ گاڑی میں موجود افراد کے بیان کیوں نہیں لیے گئے۔ کیا وہ بیان سامنے آئیں ہیں؟ وہ کیوں بیان نہیں لیتے؟ جب تک وہ بیان سامنے نہیں آئیں گے معاملہ کیسے آگے بڑھے گا۔‘‘
دسمبر 2007ء میں سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو راولپنڈی میں ایک انتخابی ریلی سے خطاب کے بعد فائرنگ اور بم دھماکے ہلاک ہو گئی تھیں اور اس وقت کے حکام نے اس کی ذمہ داری القاعدہ سے منسلک کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے کمانڈر بیت اللہ محسود پر عائد کی۔ بیت اللہ بعد میں مبینہ امریکی ڈرون حملے میں جنوبی وزیرستان میں مارا گیا۔
افشاں عادل کے بقول فوج کے سابق سربراہ کو اس مقدمے میں شامل کرنا تحقیقات کا رخ موڑنے اور حقائق پر پردہ ڈالنے کی کوشش ہے۔
’’کیا مشرف طالبان کے ساتھ مل کر سازش کر سکتا تھا جدھر زمین و آسمان کا فرق تھا؟ وہ شخص انہیں مار رہا تھا اور وہ مشرف کو مارنا چاہتے تھے۔ سازش تو وہاں ہوتی ہے جہاں لوگ ہم نوالا اور ہم پیالہ ہوں۔‘‘
استغاثہ کے وکیل محمد اظہر چوہدری کہنا ہے کہ ان کے پاس ٹھوس ثبوت ہیں کہ اس وقت کے سیکورٹی سے متعلق اعلیٰ اقسران کی درخواست کے باوجود پرویز مشرف نے بے نظیر بھٹو کی سیکورٹی بڑھانے کے احکامات جاری نا کیے۔ تاہم وہ مقدمے کے جلد فیصلے کی توقع نہیں کرتے۔
پرویز مشرف کے علاوہ اس مقدمے میں سات اور افراد بھی شامل ہیں جن میں دو اعلیٰ پولیس افسران اور حملہ آور کے پانچ مبینہ ساتھی ہیں۔ بے نظیر قتل کیس کی آئنندہ سماعت 27 اگست کو ہو گی جس میں استغاثہ کے وکیل کے بقول شواہد قلم بند کیے جائیں گے۔
فوج کے سابق سربراہ ججوں کی نظر بندی اور بلوچ قوم پرست رہنما نواب اکبر بگٹی قتل کیس کا بھی سامنا ہے۔