اسلام آباد —
پاکستان کے سابق فوجی صدر پرویز مشرف نے اپنے خلاف غداری کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ اس معاملے پر انھیں فوج کی حمایت حاصل ہے۔
انھوں نے یہ انکشاف اتوار کو اسلام آباد میں غیر ملکی صحافیوں سے گفتگو میں کیا اور کہا کہ ان پر لگائے گئے غداری کے الزامات انتقامی کارروائی کا نتیجہ ہیں۔
پرویز مشرف کو رواں سال وطن واپسی کے بعد سے مختلف مقدمات کا سامنا رہا ہے اور اپریل میں انھیں ان مقدمات میں گرفتاری کے بعد سب جیل قرار دی گئی اپنی رہائش گاہ پر قید بھی رہنا پڑا۔
لیکن وہ گزشتہ ماہ ضمانت پر رہائی کے بعد سے مختلف مقامی و غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو انٹرویوز دیتے آرہے ہیں۔
حالیہ دنوں میں ایک نجی پاکستانی ٹی وی چینل ’اے آر وائی‘ کو دیے گئے انٹرویو میں بھی سابق صدر نے خود کو حاصل فوج کی حمایت کا تذکرہ کچھ ان الفاظ میں کیا تھا۔
’’آپ جائیں ان ساڑھے پانچ لاکھ لوگوں (پاکستانی فوج) میں ان کے جذبات معلوم کریں ۔ ۔ ۔ مجھے پورا یقین ہے وہ سب میرے ساتھ ہیں۔‘‘
ایک تین رکنی خصوصی عدالت نے منگل کو ان کے خلاف وفاقی حکومت کی درخواست پر غداری کے مقدمے کی سماعت کا آغاز کیا تھا لیکن سابق صدر اپنی جان کو لاحق خطرات کے وجہ سے بینچ کے سامنے پیش نہیں ہوئے تھے۔
عدالت نے یکم جنوری کو انھیں عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس سماعت میں پرویز مشرف پر فرد جرم عائد کی جائے گی۔
پرویز مشرف پر الزام ہے کہ انھوں نے تین نومبر 2007ء کو آئین توڑا اور ملک میں ایمرجنسی نافذ کی۔ تاہم وہ خود اور ان کے وکلاء اپنے اس موقف کو دہراتے آئے ہیں کہ یہ اقدام کسی فرد واحد کا نہیں تھا اور ایمرجنسی نافذ کرنے کے فیصلے میں اعلیٰ حکومتی اور فوجی عہدیداروں کی مشاورت بھی شامل تھی۔
پرویز مشرف کے اس تازہ بیان پر پاکستان کی فوج کی طرف سے فوری طور پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا تاہم حالیہ مہینوں میں پاکستانی فوج یہ کہہ چکی ہے وہ ایسے کسی بھی عدالتی معاملے میں فریق نہیں ہے۔
تقریباً نو سال تک ملک کے صدر رہنے والے پرویز مشرف نے 2008ء میں اس عہدے سے استعفیٰ دیا اور 2009ء میں خودساختہ جلاوطنی اختیار کرتے ہوئے بیرون ملک چلے گئے۔
رواں سال مارچ میں انتخابات میں حصہ لینے کے لیے وہ وطن واپس آئے لیکن انھیں اس عمل کے لیے نااہل قرار دے دیا گیا۔
ان کے خلاف بینظیر بھٹو قتل کیس، بزرگ بلوچ قوم پرست رہنما نواب اکبر بگٹی قتل کیس، ججز نظر بندی کیس اور لال مسجد کیس قائم ہیں اور ان تمام میں وہ ضمانت پر رہا ہوچکے ہیں۔
ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل ہونے کی وجہ سے وہ بیرون ملک نہیں جا سکتے اور ایک روز قبل انھوں نے اپنی علیل والدہ کو دبئی سے پاکستان لانے کے لیے خصوصی طیارہ فراہم کرنےکی حکومتی پیشکش کو بھی مسترد کر دیا تھا۔
حکومت یہ کہتی آئی ہے کہ پرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ چلانے کی درخواست کسی سیاسی یا ذاتی انتقام کی وجہ سے نہیں بلکہ آئین کی پاسداری کرتے ہوئے دائر کی گئی۔
سابق صدر نے خصوصی عدالت کی تشکیل اور ججوں کے تقرر کے خلاف اعتراض اٹھاتے ہوئے درخواستیں جمع کروائی تھیں جن پر یہی خصوصی عدالت یکم جنوری کو شروع کرے گی۔
انھوں نے یہ انکشاف اتوار کو اسلام آباد میں غیر ملکی صحافیوں سے گفتگو میں کیا اور کہا کہ ان پر لگائے گئے غداری کے الزامات انتقامی کارروائی کا نتیجہ ہیں۔
پرویز مشرف کو رواں سال وطن واپسی کے بعد سے مختلف مقدمات کا سامنا رہا ہے اور اپریل میں انھیں ان مقدمات میں گرفتاری کے بعد سب جیل قرار دی گئی اپنی رہائش گاہ پر قید بھی رہنا پڑا۔
لیکن وہ گزشتہ ماہ ضمانت پر رہائی کے بعد سے مختلف مقامی و غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو انٹرویوز دیتے آرہے ہیں۔
حالیہ دنوں میں ایک نجی پاکستانی ٹی وی چینل ’اے آر وائی‘ کو دیے گئے انٹرویو میں بھی سابق صدر نے خود کو حاصل فوج کی حمایت کا تذکرہ کچھ ان الفاظ میں کیا تھا۔
’’آپ جائیں ان ساڑھے پانچ لاکھ لوگوں (پاکستانی فوج) میں ان کے جذبات معلوم کریں ۔ ۔ ۔ مجھے پورا یقین ہے وہ سب میرے ساتھ ہیں۔‘‘
ایک تین رکنی خصوصی عدالت نے منگل کو ان کے خلاف وفاقی حکومت کی درخواست پر غداری کے مقدمے کی سماعت کا آغاز کیا تھا لیکن سابق صدر اپنی جان کو لاحق خطرات کے وجہ سے بینچ کے سامنے پیش نہیں ہوئے تھے۔
عدالت نے یکم جنوری کو انھیں عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس سماعت میں پرویز مشرف پر فرد جرم عائد کی جائے گی۔
پرویز مشرف پر الزام ہے کہ انھوں نے تین نومبر 2007ء کو آئین توڑا اور ملک میں ایمرجنسی نافذ کی۔ تاہم وہ خود اور ان کے وکلاء اپنے اس موقف کو دہراتے آئے ہیں کہ یہ اقدام کسی فرد واحد کا نہیں تھا اور ایمرجنسی نافذ کرنے کے فیصلے میں اعلیٰ حکومتی اور فوجی عہدیداروں کی مشاورت بھی شامل تھی۔
پرویز مشرف کے اس تازہ بیان پر پاکستان کی فوج کی طرف سے فوری طور پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا تاہم حالیہ مہینوں میں پاکستانی فوج یہ کہہ چکی ہے وہ ایسے کسی بھی عدالتی معاملے میں فریق نہیں ہے۔
تقریباً نو سال تک ملک کے صدر رہنے والے پرویز مشرف نے 2008ء میں اس عہدے سے استعفیٰ دیا اور 2009ء میں خودساختہ جلاوطنی اختیار کرتے ہوئے بیرون ملک چلے گئے۔
رواں سال مارچ میں انتخابات میں حصہ لینے کے لیے وہ وطن واپس آئے لیکن انھیں اس عمل کے لیے نااہل قرار دے دیا گیا۔
ان کے خلاف بینظیر بھٹو قتل کیس، بزرگ بلوچ قوم پرست رہنما نواب اکبر بگٹی قتل کیس، ججز نظر بندی کیس اور لال مسجد کیس قائم ہیں اور ان تمام میں وہ ضمانت پر رہا ہوچکے ہیں۔
ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل ہونے کی وجہ سے وہ بیرون ملک نہیں جا سکتے اور ایک روز قبل انھوں نے اپنی علیل والدہ کو دبئی سے پاکستان لانے کے لیے خصوصی طیارہ فراہم کرنےکی حکومتی پیشکش کو بھی مسترد کر دیا تھا۔
حکومت یہ کہتی آئی ہے کہ پرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ چلانے کی درخواست کسی سیاسی یا ذاتی انتقام کی وجہ سے نہیں بلکہ آئین کی پاسداری کرتے ہوئے دائر کی گئی۔
سابق صدر نے خصوصی عدالت کی تشکیل اور ججوں کے تقرر کے خلاف اعتراض اٹھاتے ہوئے درخواستیں جمع کروائی تھیں جن پر یہی خصوصی عدالت یکم جنوری کو شروع کرے گی۔