پاکستانی سیاست میں سابق صدر پرویز مشرف کی واپسی کے اعلان سے کچھ اور ہوا ہویا نہ ہوا ہو مگرذرائع ابلاغ پر کافی ہلچل دیکھنے میں آرہی ہے۔ان کے ملک سے باہر جانے کے بعد یہ پہلاموقع ہے کہ میڈیا چینلز پر ان کے طویل انٹرویوز دکھائے جارہے ہیں، اور حالات حاضرہ کے پروگراموں میں سیاست دان اور تجزیہ کار ان کے بیانات پر بحث مباحثے کررہے ہیں۔
سابق صدرپرویز مشرف کہتے ہیں کہ وہ ایک مقبول راہنما ہیں اور فیس بک پر ان کے پیج پر آنے والوں کی تعداد ساڑھے تین لاکھ سے زیادہ ہے۔ جس پر ان کے ناقدین یہ اعتراض کرتے تھے کہ 17 کروڑ کی آبادی میں اس گنتی کی کیا اہمیت ہے۔ مگر سیاست میں واپسی کے اعلان کے بعد سابق صدر میڈیا چینلز اور اخبارات کے ذریعے جس انداز میں ہی سہی، لاکھوں لوگوں تک پہنچ رہے ہیں اور عام محفلوں اور قہوہ خانوں میں مہنگائی کے بعد گفتگو کا ایک بڑا موضوع بن رہے ہیں۔
سابق صدر نے یکم اکتویرکو لندن میں ایک خصوصی جلسے میں آل پاکستان مسلم لیگ کے نام سے اپنی پارٹی لانچ کرنے کا اعلان کیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان کے ہر فوجی حکمران نے مسلم لیگ ہی کے بطن سے ایک نئی مسلم لیگ پیدا کی۔ تاہم پرویز مشرف اس لحاظ سے ان میں منفرد ہیں کہ انہوں نے ایک کی بجائے دو مسلم لیگوں کو جنم دیا، یعنی مسلم لیگ قاف اور آل پاکستان مسلم لیگ۔
سابق صدرنے بعدمیں اپنی پارٹی کی ترجیحات میں تعلیم اور معیشت کوشامل کیا ہے۔ اپنے نوسالہ دور اقتدار میں ان کی حکومت نے اعلیٰ تعلیم پر بہت توجہ دی اور یونیورسٹیوں کی سطح پر تعلیمی نظام کو جدید خطوط پر استوار کرنے کی کوشش کی ۔ تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ ان کے دور میں اسکولوں کی سطح کی تعلیم کو نظر انداز کیا گیاجن کی تعلیمی نظام میں بنیادی اہمیت ہے۔
پرویز مشرف نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ 2007ء تک پاکستان تیزی سے ترقی کرتا ہوا ایک ملک تھا اور معاشی ترقی کی رفتار آٹھ فی صد تک پہنچ چکی تھی۔ کرنسی مستحکم تھی اور معیشت کا دائرہ وسیع ہورہاتھا۔ مگر کئی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس دور کی معاشی ترقی کی ساری چکاچوند حقیقت میں آسا ن بینک قرضوں کی پالیسی تھی جس سے صارفین نے بڑے پیمانے پر کریڈٹ سے خریداریاں کیں۔ موجودہ حکومت کے پہلے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ مشرف دور کی معاشی ترقی اعدادوشمار کا ہیرپھیر تھی۔
سابق صدر مشرف کہتے ہیں کہ وہ عوام کی حالت سدھارنے کے لیے سیاست میں آئے ہیں۔ جب کہ ان ناقدین کہتے ہیں کہ جو کام وہ اپنے نو سالہ دور اقتدار میں، جب وہ سفید و سیاہ کے مالک تھے، نہ کرسکے ، اسے وہ پانچ سال کی جمہوری مدت میں کیسے کرپائیں گے، جہاں انہیں اپوزیشن کا بھی سامنا ہوگا۔
پرویز مشرف نے اپنی باقاعدہ سیاست کا آغاز میاں نوازشریف پر کڑی تنقید کے ساتھ کیا ۔ جب کہ ناقدین کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنی بے قاعدہ سیاست کی ابتدا بھی نواز شریف کواقتدار کے ایوان سے باہر نکال کر ہی کی۔
پرویز مشرف الزام لگاتے ہیں کہ نواز شریف نے مجھے ایک ایسے وقت میں برطرف کیا جب میرا طیارہ فضاؤں میں تھا ، جسے انہوں نے ہائی جیک کیا۔ مشرف دور میں میاں نوازشریف پر طیارہ اغوا کا مقدمہ چلا اور انہیں سزائیں سنائی گئیں۔ دوسری جانب نواز شریف اپنے کئی انٹرویوز میں کہہ چکے ہیں کہ طیارہ ہائی جیک پرویز مشرف نے کیا تھا اور وہ فضا سے فوجی بغاوت کی نگرانی کرتے رہے۔
پرویز مشرف نے اپنے انٹرویو میں یہ تسلیم کیا ہے کہ 2007ء میں ان سے سیاسی غلطیاں ہوئیں۔ تاہم انہوں نے کہا کہ میرا چیف جسٹس افتخار چوہدری کی برطرفی کے معاملے سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ شوکت عزیز حکومت کا فیصلہ تھا جس پر انہوں نے قانون کے مطابق عمل کیا۔ تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ حالات وواقعات ان کے دعوے کی نفی کرتے ہیں۔
سابق صدر پرویز مشرف اپنے جاری کردہ این آر او آرڈی ننس کو ایک غلط فیصلہ اور سیاسی بھول قراردیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس فیصلے پر وہ قوم سے معافی مانگ چکے ہیں۔ مگر ان کا کہنا ہے کہ وہ اس معاملے میں بے قصور ہیں ۔ ان سے یہ آرڈی ننس چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الہی نے جاری کروایاتھا۔ وہ کہتے ہیں کہ چوہدری برادران نے کہا تھاکہ مقدمے ختم کردیے جائیں لیکن بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کو الیکشن سے پہلے وطن واپس آنے کی اجازت نہ دی جائے۔ چوہدری برادران اس الزام کی پرزور تردید کرچکے ہیں اور سابق صدر انہیں جھوٹا قرار دے چکے ہیں۔
این آر اوکے نتیجے میں سب سے زیادہ فائدہ ایم کیوایم کو ہوا، جس کے آٹھ ہزار سے زیادہ کارکنوں کے مقدمات ختم کردیے گئے۔ مگر اس آرڈی ننس کی مخالفت میں سب سے پہلے آواز انہوں نے اٹھائی۔ دوسرے نمبر پر فائدہ اٹھانے والی جماعت پیپلز پارٹی تھی۔ مگر اس نے سپریم کورٹ میں این آر او کا دفاع نہیں کیا اور عدالت نے یہ آرڈی ننس خلاف قانون قرار دے دیا۔
پرویز مشرف کا کہنا ہے کہ میاں نواز شریف نے سزاؤں سے بچنے کے لیے سعودی عرب کے فرماروا سے اپنی جلاوطنی کی سفارش کرائی تھی۔ جب کہ نواز شریف نے کہا ہے کہ وہ سابق صدر کی کسی بات کا جواب نہیں دیں گے۔
جرمنی کے ایک میڈیا پر کشمیر کے بارے میں سابق صدر کے بیان پرپاکستان میں حکومتی اور سیاسی سطح پر بہت نکتہ چینی ہوئی ہےجس میں انہوں نے کہا تھا کہ وہاں کی تحریک میں پاکستانی ایجنسیوں کا ہاتھ تھا۔ تاہم بعد میں انہوں نے ایک پاکستانی چینل پر اپنے انٹرویو میں تردید کرتے ہوئے الزام لگایا کہ ان کے بیان کو تروڑ مروڑ کر سیاق وسباق کے بغیر پیش کیا گیا۔
یکم اکتوبر سے سیاست میں اپنے دوبارہ داخلے کے اعلان کے بعد پرویز مشرف ، میاں نواز شریف کے بعد سب سے زیادہ تنقید چوہدری بردارن پر کررہے ہیں۔ چوہدری شجاعت حسین نے ایک ٹی وی چینل پر اپنے انٹرویو میں کہا ہے کہ پرویز مشرف نے اپنی سیاسی مہم ، صدر زرداری کے ساتھ ایک نئی مفاہمت کے تحت شروع کی ہے جس میں وہ صرف نواز شریف اور انہیں تنقید کا ہدف بنا رہے ہیں۔ تاکہ لوگوں کی توجہ حکومتی کارکردگی سے ہٹائی جائے۔ کئی مبصرین کا کہنا ہے کہ سابق صدر کے انٹرویوز اور بیانات سے حکومت کو وقتی طورپر ریلیف ملا ہے کیونکہ آج کل ذرائع ابلاغ کا زیادہ تر موضوع پرویز مشرف بنے ہوئے ہیں۔
سابق صدر نے کہاہے کہ وہ انتخابات سے قبل کسی مناسب وقت پر وطن واپس جائیں گے۔ دوسری جانب ان کے اکثر فاقدین کو ان کی واپسی پر شہبات ہیں۔
اگر سابق صدراپنی پارٹی کے پلیٹ فارم سے مستقبل کے انتخابات میں حصہ لیتے ہیں تو غالباً ان کے سب سے بڑے حریف عمران خان ہوں گے کیونکہ دونوں نوجوان نسل کی حمایت کے دعویدار ہیں۔