اسلام آباد —
قومی احتساب بیورو (نیب) کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ نے انہیں ’رینٹل پاور کیس‘ میں نامزد 16 افراد کے خلاف احتساب کی عدالت میں ریفرنس اور چالان دائر کرنے کے عمل کو تیز کرنے کی ہدایت دی نا کہ انہیں گرفتار کرنے کی۔
نیب کے ترجمان ظفر اقبال نے بدھ کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ نیب راولپنڈی کی جانب سے ملزمان کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کی سفارشات بیورو کے مرکزی دفتر کو موصول ہوچکی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اب بیورو کی لیگل ٹیم اور متعلقہ افسران کے درمیان مشاورتی عمل جاری ہے کہ کس طرح عدالت کے احکامت پر عمل در آمد کیا جائے۔ ترجمان نے مزید تفصیلات بتانے سے معذرت کی۔
’’کہیں کوئی ہدایت نہیں کہ سب کو گرفتار کیا جائے۔ ہدایت یہ ہے کہ ملزمان کے خلاف ریفرنس اور چالان دائر کیا جائے۔‘‘
ظفر اقبال نے کہا کہ ملزمان کے خلاف ریفرنس دائر ہونے کے بعد احتساب کی عدالت یا نیب اگر ضروری سمجھے تو کسی بھی ملزم کے خلاف گرفتاری کے وارنٹ جاری کئے جا سکتے ہیں۔
ملک میں بجلی کے بحران پر قابو پانے کے لیے پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت نے 2008ء میں کرائے کے بجلی گھر حاصل کرنے کا منصوبہ شروع کیا۔ بعد ازاں بدعنوانی کے الزامات پر عدالت اعظمیٰ نے 2010ء میں اس منصوبے سے متعلق تمام معاہدوں کو منسوخ کرکے ملوث افراد کے خلاف نیب کو کارروائی کی ہدایت کی تھی۔ ان ملزمان میں وزیر اعظم راجا پرویز اشرف بھی شامل ہیں جو کہ اس وقت وفاقی وزیر پانی و بجلی تھے۔
منگل کو چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے ’رینٹل پاور کیس‘ پر عدالت اعظمیٰ کے فیصلوں پر عمل درآمد سے متعلق سماعت کے دوران اپنے احکامات میں کہا تھا کہ اس مقدمے میں ملوث ملزمان میں سے اگر کوئی شخص ملک سے فرار ہوا تو اس کی ذمہ داری نیب کے چیئرمین پر عائد ہوگی۔
وزیر اعظم سمیت 16 افراد کی گرفتاری کے عدالتی احکامات کے فوراً بعد وزیر اعظم، حکومت اور جمہوری نظام کے مستقبل کے بارے میں چہ مگوئیاں شروع ہوگئیں۔
پاکستان کی انسانی حقوق کی تنظیم (ایچ آر سی پی) نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ عدلیہ کو ریاست سے متعلق اپنے فیصلوں کے نتائج کو جانچنا چاہیے۔
’’بظاہر وزیراعظم کی گرفتاری کے حکم پر تنقید کی ہوگی۔ کافی لوگ شاید سمجھے کہ یہ فیصلہ بھڑکتی ہوئی آگ پر تیل ڈالنے سے بھی زیادہ ہے۔‘‘
عدالت اعظیٰ کے اس فیصلے کے بعد کراچی میں کاروبار حصص میں شدید مندی ریکارڈ کی گئی۔
سپریم کورٹ کے سینئر وکیل سلمان اکرم راجہ کا کہنا ہے کہ ملزمان کی گرفتاری سے متعلق عدالت اعظمیٰ کے احکامات واضح ہیں اور ملزمان کی گرفتاری کے لیے احتساب کی عدالت کے احکامات کی ضرورت نہیں۔
’’احتساب کی عدالتیں تو کبھی نہیں کہتیں کہ فلاں کو گرفتار کرلو۔ پھر لوگوں کی بعد میں عدالت سے ضمانت پر رہائی حاصل کی جاتی ہے۔ یہ صرف اس سے اپنے پاؤں کھینچ رہے ہیں تا کہ کچھ وقت مل جائے اور حالات بہتر ہو جائیں۔‘‘
بعض قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کی طرف سے گرفتاری کے احکامات کے باوجود راجہ پرویز اشرف وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز رہ سکتے ہیں۔
سپریم کورٹ نے نیب کو رینٹل پاور کیس کے ملزمان کے خلاف کارروائی کی رپورٹ جمعرات تک جمع کرانے کی ڈید لائن دے رکھی ہے۔
نیب کے ترجمان ظفر اقبال نے بدھ کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ نیب راولپنڈی کی جانب سے ملزمان کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کی سفارشات بیورو کے مرکزی دفتر کو موصول ہوچکی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اب بیورو کی لیگل ٹیم اور متعلقہ افسران کے درمیان مشاورتی عمل جاری ہے کہ کس طرح عدالت کے احکامت پر عمل در آمد کیا جائے۔ ترجمان نے مزید تفصیلات بتانے سے معذرت کی۔
’’کہیں کوئی ہدایت نہیں کہ سب کو گرفتار کیا جائے۔ ہدایت یہ ہے کہ ملزمان کے خلاف ریفرنس اور چالان دائر کیا جائے۔‘‘
ظفر اقبال نے کہا کہ ملزمان کے خلاف ریفرنس دائر ہونے کے بعد احتساب کی عدالت یا نیب اگر ضروری سمجھے تو کسی بھی ملزم کے خلاف گرفتاری کے وارنٹ جاری کئے جا سکتے ہیں۔
ملک میں بجلی کے بحران پر قابو پانے کے لیے پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت نے 2008ء میں کرائے کے بجلی گھر حاصل کرنے کا منصوبہ شروع کیا۔ بعد ازاں بدعنوانی کے الزامات پر عدالت اعظمیٰ نے 2010ء میں اس منصوبے سے متعلق تمام معاہدوں کو منسوخ کرکے ملوث افراد کے خلاف نیب کو کارروائی کی ہدایت کی تھی۔ ان ملزمان میں وزیر اعظم راجا پرویز اشرف بھی شامل ہیں جو کہ اس وقت وفاقی وزیر پانی و بجلی تھے۔
منگل کو چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے ’رینٹل پاور کیس‘ پر عدالت اعظمیٰ کے فیصلوں پر عمل درآمد سے متعلق سماعت کے دوران اپنے احکامات میں کہا تھا کہ اس مقدمے میں ملوث ملزمان میں سے اگر کوئی شخص ملک سے فرار ہوا تو اس کی ذمہ داری نیب کے چیئرمین پر عائد ہوگی۔
وزیر اعظم سمیت 16 افراد کی گرفتاری کے عدالتی احکامات کے فوراً بعد وزیر اعظم، حکومت اور جمہوری نظام کے مستقبل کے بارے میں چہ مگوئیاں شروع ہوگئیں۔
پاکستان کی انسانی حقوق کی تنظیم (ایچ آر سی پی) نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ عدلیہ کو ریاست سے متعلق اپنے فیصلوں کے نتائج کو جانچنا چاہیے۔
’’بظاہر وزیراعظم کی گرفتاری کے حکم پر تنقید کی ہوگی۔ کافی لوگ شاید سمجھے کہ یہ فیصلہ بھڑکتی ہوئی آگ پر تیل ڈالنے سے بھی زیادہ ہے۔‘‘
عدالت اعظیٰ کے اس فیصلے کے بعد کراچی میں کاروبار حصص میں شدید مندی ریکارڈ کی گئی۔
سپریم کورٹ کے سینئر وکیل سلمان اکرم راجہ کا کہنا ہے کہ ملزمان کی گرفتاری سے متعلق عدالت اعظمیٰ کے احکامات واضح ہیں اور ملزمان کی گرفتاری کے لیے احتساب کی عدالت کے احکامات کی ضرورت نہیں۔
’’احتساب کی عدالتیں تو کبھی نہیں کہتیں کہ فلاں کو گرفتار کرلو۔ پھر لوگوں کی بعد میں عدالت سے ضمانت پر رہائی حاصل کی جاتی ہے۔ یہ صرف اس سے اپنے پاؤں کھینچ رہے ہیں تا کہ کچھ وقت مل جائے اور حالات بہتر ہو جائیں۔‘‘
بعض قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کی طرف سے گرفتاری کے احکامات کے باوجود راجہ پرویز اشرف وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز رہ سکتے ہیں۔
سپریم کورٹ نے نیب کو رینٹل پاور کیس کے ملزمان کے خلاف کارروائی کی رپورٹ جمعرات تک جمع کرانے کی ڈید لائن دے رکھی ہے۔