اسلام آباد —
پاکستان کی سپریم کورٹ نے منگل کو 'رینٹل پاور کیس' میں وزیراعظم راجہ پرویز اشرف سمیت تمام 16 نامزد ملزمان کو 24 گھنٹوں میں گرفتار کرنے کا حکم دیا ہے۔
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں عدالت عظمٰی کے تین رکنی بینچ نے منگل کو مقدمے کی سماعت کے دوران احتساب کے قومی ادارے ’نیب‘ کو حکم دیا ہے کہ تمام نامزد ملزمان کے ملک سے باہر جانے پر پابندی عائد کرتے ہوئے ان کا نام ’ای سی ایل‘ میں ڈالا جائے۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ رینٹل پاور کیس کے معاملے میں ملوث اگر کوئی شخص ملک سے فرار ہونے میں کامیاب ہوا تو اس کی ذمہ داری نیب کے چیئرمین پر عائد کی جائے گی۔
عدالت عظمٰی اس سے قبل بھی حکومت اور کرائے کے بجلی گھروں کے تمام معاہدے منسوخ کرنے کا حکم دیتے ہوئے نیب کو ’رینٹل پاور کیس‘ میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کا حکم دیا تھا۔ اُس وقت راجہ پرویز اشرف پانی و بجلی کے وفاقی وزیر تھے۔
سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ ایسے وقت سامنے آیا جب وفاقی دارالحکومت میں پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے تحریک منہاج القرآن کے قائد طاہر القادری نے اپنے حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے حکومت سے وفاقی و صوبائی اسمبلیاں تحلیل کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
پیپلز پارٹی کی رکن قومی اسمبلی مہرین انور راجہ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ وزیراعظم اپنے قانونی مشیروں سے رابطے میں ہیں اور مشاورت کے بعد ہی کوئی حتمی فیصلہ کیا جائے گا۔
’’اس میں یہ دیکھنا ہو گا کہ وزیراعظم کو گرفتار کیا جا سکتا اور یہ دیکھنا ہو گا کہ کیا سپریم کورٹ گرفتاری کا آرڈر کر سکتی ہے یا صرف ہدایت دے سکتی ہے۔‘‘
بعض قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کی طرف سے گرفتاری کے احکامات کے باوجود راجہ پرویز اشرف وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز رہ سکتے ہیں۔
اس بارے میں معروف قانون دان سلمان اکرم راجہ نے ذرائع ابلاغ سے گفتگو میں اپنا موقف کچھ یوں بیان کیا کہ ’’تفتیش کی خاطر ان کو گرفتار کیا جاتا ہے تو ان کے اوپر کوئی قدغن آئینی نہیں لگتی ممبر (پارلمنٹ) رہنے کے حوالے سے لہذا وہ وزیراعظم رہ سکتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ ان کی پارٹی یہ فیصلہ کرے کہ کسی اور کو (اس منصب کے لیے) منتخب کر لیں"۔
اطلاعات کے مطابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے ایک اہم اجلاس طلب کر لیا ہے، لیکن سرکاری طور پر اس بارے میں ابھی کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا ہے۔
ادھر سندھ کے مخلتف شہروں میں عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے بعد فائرنگ اور ہنگاموں کی اطلاعات بھی موصول ہوئی ہیں۔
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں عدالت عظمٰی کے تین رکنی بینچ نے منگل کو مقدمے کی سماعت کے دوران احتساب کے قومی ادارے ’نیب‘ کو حکم دیا ہے کہ تمام نامزد ملزمان کے ملک سے باہر جانے پر پابندی عائد کرتے ہوئے ان کا نام ’ای سی ایل‘ میں ڈالا جائے۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ رینٹل پاور کیس کے معاملے میں ملوث اگر کوئی شخص ملک سے فرار ہونے میں کامیاب ہوا تو اس کی ذمہ داری نیب کے چیئرمین پر عائد کی جائے گی۔
عدالت عظمٰی اس سے قبل بھی حکومت اور کرائے کے بجلی گھروں کے تمام معاہدے منسوخ کرنے کا حکم دیتے ہوئے نیب کو ’رینٹل پاور کیس‘ میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کا حکم دیا تھا۔ اُس وقت راجہ پرویز اشرف پانی و بجلی کے وفاقی وزیر تھے۔
سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ ایسے وقت سامنے آیا جب وفاقی دارالحکومت میں پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے تحریک منہاج القرآن کے قائد طاہر القادری نے اپنے حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے حکومت سے وفاقی و صوبائی اسمبلیاں تحلیل کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
پیپلز پارٹی کی رکن قومی اسمبلی مہرین انور راجہ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ وزیراعظم اپنے قانونی مشیروں سے رابطے میں ہیں اور مشاورت کے بعد ہی کوئی حتمی فیصلہ کیا جائے گا۔
’’اس میں یہ دیکھنا ہو گا کہ وزیراعظم کو گرفتار کیا جا سکتا اور یہ دیکھنا ہو گا کہ کیا سپریم کورٹ گرفتاری کا آرڈر کر سکتی ہے یا صرف ہدایت دے سکتی ہے۔‘‘
بعض قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کی طرف سے گرفتاری کے احکامات کے باوجود راجہ پرویز اشرف وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز رہ سکتے ہیں۔
اس بارے میں معروف قانون دان سلمان اکرم راجہ نے ذرائع ابلاغ سے گفتگو میں اپنا موقف کچھ یوں بیان کیا کہ ’’تفتیش کی خاطر ان کو گرفتار کیا جاتا ہے تو ان کے اوپر کوئی قدغن آئینی نہیں لگتی ممبر (پارلمنٹ) رہنے کے حوالے سے لہذا وہ وزیراعظم رہ سکتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ ان کی پارٹی یہ فیصلہ کرے کہ کسی اور کو (اس منصب کے لیے) منتخب کر لیں"۔
اطلاعات کے مطابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے ایک اہم اجلاس طلب کر لیا ہے، لیکن سرکاری طور پر اس بارے میں ابھی کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا ہے۔
ادھر سندھ کے مخلتف شہروں میں عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے بعد فائرنگ اور ہنگاموں کی اطلاعات بھی موصول ہوئی ہیں۔